Friday, June 21, 2013

مکاشفۃ القلوب، باب ۲۷ ذکر مرگ


درود شریف کی برکت

فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم: جس نے کتاب میں مجھ پر درود پاک لکھا تو جب تک میرا نام اُس کتاب میں لکھا رہے گا فرشتے اس کیلے استغفار کرتے رہیں گے۔
ان لوگوں کے لیے فکر کا مقام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے آگے محض چند لمحے بچانے کے لیے ؐ صلم، یا انگریزی میں SAW لکھ کر ایک بہت بڑی رحمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ذکرِ مرگ

فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:-

کثروامن ذکر ھازم اللذات
لذتوں کو مٹانے والی (یعنی موت) کو بہت یاد کرو

اس فرمان میں یہ اشارہ ہے کہ انسان موت کو یاد کرے کے دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش ہو جائے تا کہ اسے بارگاہِ ربوبیت میں مقبولیت حاصل ہو۔

موت کو یاد کرنے والا شہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا

فرمانِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے اگر تمہاری طرح جانور موت کو جان لیتے تو ان میں کوئی موٹا جانور کھانے کو نہ ملتا۔ حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)! کسی کا حشر شہیدوں کے ساتھ بھی ہوگا؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جو شخص دن رات میں بیس مرتبہ  موت کو یاد کرتا ہے وہ شہید کے ساتھ اٹھایا جائیگا۔

       اس فضیلت کا سبب یہ ہے کہ موت کی یاد دنیا  سے دل اچاٹ کر دیتی ہے اور آخرت کی تیاری پر اکساتی ہے لیکن موت کو بھول جانا انسان کو دنیاوی خواہشات میں منہمک کر دیتا ہے۔

       فرمانِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے کہ موت مومن کے لئے ایک تحفہ ہے اس لئے کہ مومن دنیا میں قید خانے جیسی زندگی بسر کرتا ہے، اسے اپنی خواہشاتِ نفسانی کی اور شیطان کی مدافعت کرنا پڑتی ہے اور یہ چیز کسی مومن کے لئے عذاب سے کم نہیں مگر موت اسے ان مصائب سے یاد دلاتی ہے لٰہازا یہ اس کے لئے تحفہ ہے۔

فرمانِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے کہ موت مسلمان کے لئے کفارہ ہے، مسلمان سے مراد وہ مومن کامل ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ  رہیں۔ اس میں مومنوں کے اخلاقِ حسنہ پائے جائیں اور وہ ہر کبیرہ گناہ سے بچتا ہو، ایسے شخص کی موت اس کے صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور فرائض کی ادائیگی اسے گناہوں سے منزہ و پاک کر دیتی ہے۔

حضرتِ عطاء خراسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی مجلس سے گزرے جس میں لوگ زور زور سے ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی مجلس میں لذتوں کو فنا کر دینے والی چیز کا ذکر کرو، پوچھا گیا حضور صلی  اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرو، اس سے گناہ ختم ہو جاتے ہیں اور دنیا سے بے رغبتی بڑھتی ہے۔

فرمانِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے کہ موت جدائی ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا کہ موت سب سے بڑا ناصح ہے۔

ایک مرتبہ حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے ایسی جماعت کو دیکھا جو ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موت کو یاد کرو ربِ ذوالجلال کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جو میں جانتا ہوں اگر وہ تمہیں معلوم ہو جائے تو کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔

حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفل میں ایک مرتبہ ایک شخص کی بہت تعریف کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ موت کو یاد کرتا ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہم نے کہیں نہیں سنا۔ تب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ ایسا نہیں ہے جیسا تم خیال کرتے ہو۔

بزرگانِ دین کے ارشادات
      حضرتِ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے کہ میں دسواں شخص تھا جو (ایک دن) حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر تھا، ایک انصاری جوان نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)! سب سے زیادہ باعزت اور ہوشیار کون ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جو موت کو بہت یاد کرتا ہے اور اس کے لئے زبردست تیاری کرتا ہے وہ ہوشیار  ہے اور ایسے ہی لوگ دنیا اور آخرت میں باعزت ہوتے ہیں۔

      حضرت حسن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ موت نے دنیا کو ذلیل کردیا ہے اس میں کسی عقلمند کے لئے مسرت ہی نہیں ہے۔ حضرت ربیع بن خثیم کا قول ہے کہ مومن کے لئے  موت کا انتظار سب انتظاروں سے بہتر ہے۔ مزید فرمایا کہ ایک دانا نے اپنے دوست کو لکھا  اے بھائی! اس جگہ جانے سے پہلے جہاں آرزو کے باوجود بھی موت نہیں آئے گی (اس جگہ) موت سے ڈر اور نیک عمل کر۔

      امام ابنِ شیرین کی محفل میں جب موت کا تذکرہ کیا جاتا تو ان کا ہر عضو سن ہو جاتا تھا، حضرتِ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دستور تھا ہر رات علماء کو جمع کرتے، موت، قیامت اور آخرت کا ذکر کرتے ہوئے اتنا روتے کہ معلوم ہوتا جیسے جنازہ سامنے رکھا ہے۔
      حضرت ابراہیم التیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ مجھے موت اور اللہ کے حضور حاضری کی یاد نے دنیا کی لذتوں سے ناآشنا کردیا ہے۔ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جس نے موت کو پہچان لیا اس سے تمام دنیا کے دکھ، درد ختم ہوگئے۔

      حضرت مطرف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کوئی شخص بصرہ کی مسجد کے وسط میں کھڑا کہہ رہا تھا کہ موت کی یاد نے خوف خدا رکھنے والوں کے جگر ٹکڑے ٹکڑے کردیَے، رب کی قسم تم انہیں ہر وقت بے چین پاؤ گے۔

      حضرتِ اشعث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، ہم جب بھی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے، وہاں جہنم، قیامت اور موت کا ذکر سنتے۔

      حضرت ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اپنی سنگدلی کی شکایت  کی تو انہوں نے کہا موت  کو یاد کیا کرو، تمہارا دل نرم  ہو جائے گا، اس نے ایسا ہی کیا اور اس کا دل نرم ہو گیا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کا شکریہ ادا کیا۔



موت کے ذکر پر عیسیٰ علیہ السلام کی حالت
      حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب موت کا ذکر سنتے تو ان کے جسم سے خون کے قطرے گرنے لگتے۔ حضرت داؤد علیہ السلام جب موت اور قیامت کا ذکر کرتے تو ان کی سانس اکھڑ جاتی اور بدن پرلرزہ طاری ہو جاتا،  جب رحمت کا ذکر کرتے تو ان کی حالت سنبھل جاتی ۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے، میں نے جس عقلمند کو دیکھا اس کو موت سے لرزاں اور غمگین پایا۔

      حضرت عمر بن العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عالم سے کہا مجھے نصیحت کرو، انہوں نے کہا تم خلیفہ ہونے کے باوجود موت سے نہیں بچ سکتے، تمہارے آباء و اجداد میں آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک ہر کسی نے موت کا جام پیا ہے اب تمہاری باری ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سنا تو بہت دیر تک روتے رہے۔

      حضرت ربیع بن خثیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر کے ایک گوشے میں قبر کھود رکھی تھی اور دن میں کئی مرتبہ اس میں جا کر سوتے اور ہمیشہ موت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے، اگر میں ایک لمحہ بھی موت کی یاد سے غافل ہو جاؤں تو سارا کام بگڑ جائے۔

      حضرت مطرف بن عبداللہ بن الشخیر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے  اس موت نے دنیا داروں سے ان کی دنیا چھین لی ہے پس اللہ تعالیٰ سے ایسی نعمتوں کا سوال کرو جودائمی ہیں۔

      حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عنبسہ سے کہا موت کو اکثر یاد کیا کرو اگر تم فراخ دست ہو تو یہ تم کو تنگدست کردیگی اور اگر تم تنگدست ہو تو یہ تم کو ہمیشہ کی فراخ دستی عطا کردے گی۔

      حضرت ابو سلیمان الدرانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے میں نے ام ہارون سے پوچھا کہ تجھے موت سے محبت ہے؟ وہ بولی نہیں، میں نے پوچھا کیوں؟ تو اس نے کہا میں جس شخص کی نافرمانی کرتی ہوں اس سے ملاقات کی تمنا کبھی نہیں کرتی، موت کے لئے میں نے کوئی کام نہیں کیا لہذا اسے کیسے محبوب سمجھوں۔

      حضرت ابو موسیٰ تمیمی کہتے ہیں کہ مشور شاعر فرزدق کی بیوی کا انتقال ہوگیا تو اس کے جنازہ میں بصرہ کی مقتدر ہستیاں شریک ہوئیں جن میں حضرت حس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، اے ابو فراس! تو نے اس دن کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے کہا ساٹھ سال سے متواتر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کررہا ہو، جب اسے دفن کر دیا گیا تو فرزدق نے اس کی قبر پر کھڑے ہو کر کہا۔

اخاف ورآء القبر ان لم تعافنی      اسد من القبر التھا با و اضیقا
اذ اجاء نی یوم القیمۃ قائد           عنیف وسواق یسوق الفرذدقا
لقد خاب من اولاد ادم من مشی      الی النار مغلول القلادۃ ارزقا

۱، اے اللہ! اگر تو مجھے معاف کردے، میں قبر کے افشار اور شعلوں سے خائف ہوں۔
۲، جب قیامت کا دن آئے گا تو ایک سنگدل ہیبت ناک فرشتہ فرزدق کو ہنکائیگا۔
۳، بلا شبہ نسلِ آدم کا وہی شخص رسوا ہوا جسے طوق پہنا کر جہنم میں بھیجا گیا۔


قبور کے حسرت آگیں کتبات
       اہلِ قبور کے لئے بعض شعراء نے کچھ عبرت آگیں اشعار کہے ہیں:-

قف بالقبور و قل علی سا حاتھا       من منکم المغمور فی ظلماتھا
ومن المکرم منکم فی قعرھا           قد ذاق بر دالامن من روعاتھا
اما السکوں لذی العیون فواحد         لایستبین الفضل فی در جاتھا
لو جا وبوک لاخبروک بالسن         تصف الحقائق بعد من حالاتھا
اماالمطیع فنازل فی روضۃ            یفضی الی ما شاء من دو حاتھا
والمطیع الطاغی بھا متلقب                فی حضرۃ یاوی الی حیاتھا
وعقارب تسعی الیہ فروحۃ            فی شدۃ التعذیب من لدغاتھا

۱۔ قبر کے صحنو(قبرستان) میں کھڑا ہو کر ان سے پوچھ تم  میں سے کون تاریکی  میں ڈوبا ہوا ہے،
۲۔ اور کون اس کی گہرائی میں باعزت طور پر امن و سکون میں ہے۔
۳۔ آنکھ والوں کے لئے ایک ہی سکون ہے اور مراتب کا تفاوت دکھائی نہیں دیتا۔
۴۔ اگر وہ تجھے جواب دیں تو اپنی زبانِ حال سے حالات کی حقیقت یوں بیاں کریں گے۔
۵۔ جو مطیع اور فرمانبردار تھا وہ جنت کے باغوں میں جہاں چاہتا ہے سیر کرتا ہے۔
۶۔ اور بدبخت مجرم سانپوں کے مسکن والے ایک گڑھے میں تڑپ رہا ہے۔
۷۔ اس کی طرف بچھو دوڑ دوڑ کر بڑھ رہے ہیں اور اس کی روح ان کی وجہ سے سخت عذاب میں ہے۔

       حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں قبرستان سے یہ شعر پڑھتا ہوا گزرا

اتیت القبور فنادیتھا              فاین المعظم والمحتقر
واین المذال بسلطانہ             واین المزکی اذا ماافتخر

۱۔ میں نے قبرستان میں آ کر پکارا کہ عزت دار اور فقیر کہاں ہے؟
۲۔ اپنی پاکدامنی پر فخر کرنے والا اور بادشاہِ وقت کہاں ہے؟

       حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے سوالات کا قبروں سے یہ جواب آیا

تفانو اجمیعا فما مخبر           وماتو اجمیعا ومات الخبر
تروح وتغدبنات الثری          فتمحو امحاسن تلک الصور
فیاسا ئلی عن اناس مضوا             امالک فیما تری معتبر

۱۔ سب فنا ہوگئے، کوئی خبر دینے والا نہیں رہا، سب کے سب مر گئے ان کے نشان بھی مٹ گئے۔
۲۔ صبح ہوتی ہے اور شام ہوتی ہے اور ان کی حسین صورتیں مٹی بگاڑتی چلی جاتی ہے۔
۳۔ اے گزرے ہوؤں کے متعلق پوچھنے والے کیا تو نے ان قبروں سے عبرت حاصل کی ہے؟

ایک اور قبر پر لکھا ہوا تھا

تناجیک احدات وھن ضموت          وسکانحا تھت التراب خفوت
ایا جامع الدینا لغیر بلاغۃ             لمن تجمع الدنیا وانت تموت

۱۔ وہ قبریں جن کے رہنے والے منوں مٹی کے نیچے خاموش پڑے ہیں، زبانِ حال سے تجھے یہ کہہ رہے ہیں۔
۲۔ اے لوگوں کے لئے دنیا جمع کرنے والے تجھے تو مر جانا ہے پھر یہ دنیا تو کس کے لئے جمع کرتا ہے؟

ابنِ سماک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں قبرستان سے گزرا، ایک قبر پر لکھا تھا

یمر اقاربی جنبات قبری        کان اقاربی لم یعرفونی
ذووالمیراث یقتسمون مالی      وما یالون ان جحدوا دیونی
وقد  اخذواسھا مھم وعاشوا     فباللہ اسرع مانسونی

۱۔ میرے رشتہ دار میری قبر کے پہلو سے انجان بن کر گزر جاتے ہیں۔ (دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعا نہ سلام، ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو)
۲۔ انہوں نے میرا مال تو تقسیم کرلیا مگر میرا قرض نہ اتارا۔
۳۔ اپنے اپنے حصے لے کر وہ خوش ہیں، ہائے افسوس! وہ مجھے کتنی جلدی بھول گئے ہیں!

ایک اور قبر پر یہ لکھا تھا

ان الحبیب من الاحباب مختبس        لایمنع الموت بواب ولا جرس!
مکیف تفرح بالدنیا ولذتھا              یامن یعد علیہ اللفظ والنفس
اصبحت یا غافلافی النقص منغمسا           وانت دھرک فی اللذات منغمس
لایر حم الموت ذاجھل لغرتہ                  ولاالذی کان منہ العلم تقتبس
کم اخرس الموت گی قبر وقفت بہ           عن الجواب لسانا ما بہ خرس
قد کانا قصرک معمور الہ شرف             فقبرک الیوم فی الاجداث مندرس

۱۔ موت نے دوست کو دوستوں کی محفل سے اُچک لیا اور کوئی دربان، چوکیدار اُسے نہ بچا سکا۔
۲۔ وہ دنیاوی آسائشوں سے کیسے خوش ہو سکتا ہے جس کی ہر بات اور ہر سانس کو گِنا جائے۔
۳۔ اے غافل! تو نقصان میں سرگرم ہے اور تیری زندگی  خواہشات میں ڈوبی ہوئی ہے۔
۴۔ موت کسی جاہل پر جہالت کے باعث اور کسی عالم پر علم کے سبب رحم نہیں کرتی۔
۵۔ موت نے کتنے بولنے والوں کو قبروں میں گونگا بنا دیا وہ جواب ہی نہیں دے سکتے۔
۶۔ کل تیرا محل عزت سے معمور تھا اور آج تیری قبر کا نشان بھی مٹ گیا ہے۔

ایک اور قبر پر لکھا تھا
۱۔ جب میرے دوستوں کی قبریں اونٹ کی کوہانوں کی طرح بلند اور برابر ہوگئیں تو مجھے معلوم ہوا۔
۲۔ اگر چہ میں رویا اور میرے آنسو بہنے لگے مگر ان کی آنکھیں اسی طرح ٹھہری رہیں (انہوں نے آنسو نہیں بہائے)

ایک طبیب کی قبر پر لکھا ہو تھا

قد قلت لما قال لی قئل           قد صار لقمان الی رمسہ
فاین من یوسف من طبہ         وحذقہ فی الماء مع جسہ
ھیھات لاید فع عن غیرہ        من کان لاید فع عن نفسہ

۱۔ جب کسی نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا کہ لقمان جیسا طبیب و دانشمند بھی اپنی قبر میں جا سویا۔
۲۔ کہاں ہے وہ جس کی طب میں شخصیت مسلم تھی اور اس جیسا کوئی ماہر نہ تھا۔
۳۔ جو اپنے آپ سے موت کو نہ ٹال سکا وہ دوسروں سے موت کو کیسے ٹالتا۔

ایک اور قبر پر لکھا ہو تھا۔

یا ایھا الناس کان لی امل              قصر بی عن بلوغہ الاجل
فلیتق اللہ ربہ رجل              امکنہ فی حیا تہ العمل
ماانا وحدی نقلت حیث تری           کل الی مثلہ سینتقل

۱۔ اے لوگو! میری بہت سی تمنائیں تھیں مگر موت نے انہیں پورا کرنیکی مہلت نہ دی۔
۲۔ اللہ سے ڈر اور اپنی زندگی میں نیک عمل کر ( بندے کو چائے کہ وہ اللہ عزوجل سے ڈرے جس نے اسے پالا اور اسے زندگی میں عمل کا موقع دیا)
۳۔ میں اکیلا یہاں نہیں آیا بلکہ ہر کسی کو یہاں آنا ہے۔


No comments: