Saturday, June 22, 2013

نیت کی اہمیت


عَنْ عُمَرَ بْن الْخَطَّاب قَالَ سَمِعْتُ  رَسُوْلَ اللہِ یَقُوْلُ الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّۃِ وَ لِامْرِیئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ لِدُنْیَا یُصِیْبُھَا أَوِ امْرَءَ ۃٍ یَتَزَوَّ جُہَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰیمَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ

حضرت عمر بن خطاب سے(روایت ہے) کہاانہوں نے (کہ) میں نے سنا  اللہ کے رسول(کو) فرماتے ہوئے اعمال نیت ہی کیساتھ(ہیں) اور ہرشخص کیلئے ہے وہ جسکی اس نےنیت کی تو جس کی ہجرت تھی اللہ کی طرف اور اسکے رسول(کی طرف)تو اسکی ہجرت اللہ اور اسکے رسول کی طرف ہے اور جس کی ہجرت تھی دنیا کے لئے جس کو وہ حاصل کرے یا  عورت (کی طرف) جس سے وہ نکاح کرے تو اسکی ہجرت  (اسی کی)طرف ہے ہجرت کی اس نے جس کی طرف

بامحاورہ ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا، میں نے اللہ کے رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال (کا ثواب)نیت ہی پر ہے ہر شخص کیلئے وہی ہے جو اس نے نیت کی، تو جس کی ہجرت اللہ اور رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہی ہے اور جس کی ہجرت دنیا کی طرف ہو جسے وہ حاصل کرے یا کسی عورت کی طرف ہو جس سے وہ نکاح کرے تو اسکی ہجرت اسی کی طرف ہے جسکی طرف اس نے ہجرت کی۔

(صحیح البخاری،کتاب العتق،باب الخطاء والنسیان...الخ،الحدیث۲۵۲۹،ج ۲،ص۱۵۳)

وضاحت

     مصنفینِ حدیث عُموماً اپنی کتاب کی ابتداء میں اس حدیث کو لا کر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تحصیلِ علم سے قبل نیت کی دُرستگی ضروری ہے۔
 (ماخوذ از اشعۃاللمعات ،ج۱،ص۳۵)

    اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اعمال کا ثواب نیت پر ہی ہے ،بغیر نیت کسی عمل پر ثواب کا استحقاق(یعنی حق) نہیں ۔اعمال عمل کی جمع ہے اور اس کا اطلاق اعضاء، زبان اور دل تینوں کے افعال پر ہوتا ہے اور یہاں اعمال سے مراد اعمالِ صالحہ(یعنی نیک اعمال)اور مباح افعال ہیں اور نیت لغوی طور پر دل کے پختہ ارادے کو کہتے ہیں اور شرعاً عبادت کے ارادے کو نیت کہا جاتا ہے ۔یاد رکھئے کہ عبادت کی دو قسمیں ہیں :
    (۱)مقصودہ :جیسے نماز ،روزہ کہ ان سے مقصود حصول ثواب ہے انہیں اگر بغیر نیت ادا کیا جائے تو یہ صحیح نہ ہوں گے اس لئے کہ ان سے مقصود ثواب تھا اور جب ثواب مفقود ہو گیا تو اس کی وجہ سے اصل شے ہی ادا نہ ہو گی ۔
    (۲)غیر مقصودہ :وہ جو دوسری عبادتوں کے لئے ذریعہ ہوں جیسے نماز کے لئے چلنا ،وضو ،غسل وغیرہ ۔ان عباداتِ غیر مقصودہ کو اگر کوئی نیتِ عبادت کے ساتھ کریگا تو اسے ثواب ملے گا اور اگر بلانیّت کریگا تو ثواب نہیں ملے گا مگر ان کا ذریعہ یا وسیلہ بننا اب بھی درست ہوگا اور ان سے نماز صحیح ہوجائے گی ۔

(ماخوذ از نزھۃالقاری شرح صحیح البخاری ،ج۱،ص۲۲۶)

     ایک عمل میں جتنی نیّتیں ہوں گی اتنی نیکیوں کا ثواب ملے گا،مثلاً محتاج قرابت دار کی مدد کرنے میں اگر نیت فقط لوجہ اللہ (یعنی اللہ عزوجل کے لئے )دینے کی ہوگی تو ایک نیت کا ثواب پائے گا اور اگر صلہِ رحمی کی نیّت بھی کرے گا تو دوہرا ثواب پائے گا۔
(اشعۃ اللمعات،ج۱،ص۳۶)

   اسی طرح مسجد میں نماز کے لئے جانا بھی ایک عمل ہے اس میں بہت سی نیّتیں کی جاسکتی ہیں، امامِ اہلسنّت الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے فتاویٰ رضویہ جلد5صفحہ673 میں اس کے لئے چالیس نیّتیں بیان کیں اور فرمایا: بے شک جو علمِ نیّت جانتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لئے کئی کئی نیکیاں کرسکتا ہے ۔
    بلکہ مباح کاموں میں بھی اچھی نیت کرنے سے ثواب ملے گا، مثلاً خوشبو لگانے میں اتباعِ سنت، تعظیمِ مسجد ،فرحتِ دماغ اور اپنے اسلامی بھائیوں سے ناپسندیدہ بُو دور کرنے کی نیّتیں ہوں تو ہر نیّت کا الگ ثواب ہوگا۔

(اشعۃاللمعات ،ج ۱،ص۳۷)



    یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہمیں ہر جائز کام میں کچھ نہ کچھ اچھی نیتیں کرنے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلانے کی توفیق عطا فرما ۔ یا اللہ!عَزَّوَجَلّ ہماری بے حِساب مغفِرت فرما ۔ یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔یااللہ ! عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ  محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی بخشش فرما ۔

 اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


No comments: