Saturday, June 22, 2013

آنسووں کا دریا - عروج وزوال


    قاضی کوفہ محمد بن غسان علیہ رحمۃ اللہ المنان فرماتے ہیں کہ'' عید ِقربان کے دن میں اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے وہاں پھٹے پرانے بو سیدہ کپڑے پہنے ہوئے ایک بڑھیا کو دیکھا ۔مجھے اس کا اندازِ گفتگو بہت اچھا لگا ۔میں نے اپنی والدہ سے پوچھا :''یہ عورت کون ہے ؟'' فرمایا :''یہ تمہاری خالہ عانیہ ہے جو ہارو ن رشید کے وزیر جعفر بن یحیٰ بر مکی کی ماں ہے ۔''
    میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔میں نے ان کی خیریت دریافت کی پھر پوچھا کہ'' آپ کی یہ حالت کیونکر ہوئی؟'' تو انہوں نے فرمایا : '' بیٹا ہم نے غفلت میں زندگی گزاری اوروقت ضائع کرنے میں لگے رہے تو زمانہ ہم سے روٹھ گیا۔'' میں نے کہا:'' اپنی شان وشوکت کا کوئی واقعہ سنائيے۔'' کہنے لگیں: ''ضرور ،ایک چھوٹا سا واقعہ سناتی ہوں اس سے میری شان وشوکت کا اندازہ لگا لینا، آج سے تین سال پہلے عیدِ قربان کے موقع پر میرے پاس چار سواوڑھنیاں تھیں۔ میرے بیٹے نے رسم کے طور پر میرے پاس ایک ہزار چار سو بکروں کے سر اور تین سو بیلوں کے سر بھیجے ،زیورات اور لباس وغیرہ ان کے علاوہ تھے۔ اس کے باوجودمیرا خیال تھا کہ میرا بیٹا میرا نافرمان ہے اور آج یہ حال ہے کہ میں تمہارے پاس دو بکرو ں کی کھالیں لینے آئی ہوں تا کہ ان کا لباس بناؤں۔''قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ'' ان کی داستانِ زوال سن کر میں بہت رنجیدہ ہوا اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، اس وقت میرے پاس جو دینار تھے میں نے انہیں تحفۃًدے دئیے ۔ ''
پیاروں!
    دیکھ لو دنیا کس طر ح منہ موڑتی ہے اور اس کی نعمتیں کس طرح فنا ہوجاتی ہیں،۔۔۔۔۔۔ دنیا کے فریب سے بڑھ کر کوئی فریب نہیں،اور جو اس کی برائی دیکھ کر اس سے کنارہ کشی کرلے وہ سعادت مندہے،۔۔۔۔۔۔ دنیا کے مصائب کثیر ہیں،ان میں سے ایک مصیبت بندے کے مال اوراولاد میں آتی ہے اور دوسری بندے کو اسلام سے دور کر کے کافر بنادیتی ہے ۔


(بحرالدموع - آنسووں کا دریا)

No comments: