(ایُّھاالوَلَد)
بیٹے کو نصیحت
صفحہ ۴۴ – ۵۲
وعظ و بیان میں کن چیزوں کا خیال رکھا جائے؟
اگر معاملہ ایسا ہو کہ تجھے
وعظ و بیان کرنا ہی پڑے تو دوباتوں سے پرہیز کرنا ۔
پہلی
بات :وعظ وبیان میں تَصَنُّع وبناوٹ ، خوش کن عبارات ، رنگین بیانی اور فُضول اشارات
سے اجتناب کرنا ۔غیر مستند و اقعات اور فُضول شعر و شاعری سے بھی پرہیز کرنا کیونکہ
اﷲ تعالیٰ تَصَنُّع اور بناوٹ سے کام لینے والوں کو نا پسندفرماتا ہے ۔ کلام میں
تَکَلُّف یا نُمُود ونُما ئش کا حد سے تجا وُز کرنا باطن کے خراب ہو نے اور دل کی
غفلت پر دلالت کرتا ہے ۔ بیان کا مقصد ( اپنی قابلیت کا اظہار نہیں بلکہ ) یہ ہے کہ
بندہ آخرت کی تکالیف و عذاب کو بھُلانہ پائے، اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں جو کوتاہیاں
سرزد ہوئیں انہیں یاد کرے ، فُضول و لایعنی کاموں میں ضائع کردہ اپنی عمر پر افسوس
کرے، اور پیش آنے والے دشوار گزار مراحل کے بارے میں غور وفکر سے کام لے کہ ایمان
پر خاتمہ نہ ہوا، تو کیا بنے گا؟ مَلَکُ الموت حضرت سیِّدُنا عزرائیل علیہ السَّلام
جب روح قبض فرمائیں گے، تو کیسی حالت ہوگی؟ اور کیا مُنکَر نکیر کے سوالوں کے
جوابات دینے کی طاقت و ہمّت ہے ؟ روزِ محشر کی سختیوں پر غور کرے ، کہ کیا پل صِراط
کو آسانی سے پار کر لے گا یا'' ھَاوِیَہ'' میں گر جائے گا؟ اس کے دل میں ان معاملات
کی یاد ہمیشہ آتی رہے اور اس سے قرار و سُکو ن چھن جائے ،تو ایسے جذبات کے جوش اور
ان مَصائب و آلام پر رونے کانام بیان ہے ۔
جبکہ لوگوں کو ان ( بیان کردہ) معاملات کی طرف
توجہ دلانا اور ان کی کوتاہیوں پر انہیں تنبیہ کرتے ہوئے، ان کے عیبوں سے انہیں
آگاہ کرنا اس طرح ہو کہ اجتماع میں بیٹھے لوگوں پر رِقَّت طاری ہو اور یہ مَصائب و
آفات ( جو پیش آنے والے ہیں ) انھیں ا فسردہ و غمزَدہ کردیں ،تاکہ جہاں تک ہو سکے
وہ اپنے برباد شدہ وقت پر افسوس کریں اور ( نیکیوں میں خوب اضافہ کرکے ) اس کی
تلافی کریں۔ اور جو دن اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں بسر کیے ،ان پر خوب حسرت و
پشیمانی کا اظہار کریں ۔اس طریقے پر جامع کلام کو وعظ کہا جاتا ہے ۔ مثلاًاگر دریا
میں طغیانی ہو اور سیلاب کا رخ کسی کے گھر کی طرف ہو، اور اتفاق سے وہ اپنے اہل
خانہ سمیت گھر میں موجود ہو، یقیناً تُو یہی کہے گا بچو!جلد ی کرو!ان خطرناک لہروں
سے بچنے کی کوشش کرو !اور کیا تیرا دل یہ چاہے گا ،کہ اس نازک و پُر خَطر موقع پر
صاحبِ خانہ کو پُرتکَلُّف عبارات، تَصَنُّع و بناوٹ سے بھر پور نِکات اور اشارے سے
خبر دے ؟ ظاہر ہے تُو ایسا کبھی نہیں چاہے گا ۔( اور نہ ہی ایسی نادانی اور بے
وقوفی کا مظاہرہ کریگا) پس یہی حال واعِظ و مُبلِّغ کا ہے ۔ اسے بھی چاہیے کہ وہ
ان باتوں یعنی پُرتکَلُّف عبارات اور تَصَنُّع و بناوٹ سے پرہیز کرے۔
دوسری
بات : وعظ و بیان کرنے میں ہر گز تیری نیّت اور خواہش یہ نہ ہو کہ لوگوں میں واہ واہ
کے نعرے بلند ہوں۔ اور وجد کی کیفیت ان پر طاری ہو ۔اور وہ گریباں چاک کر دیں ۔اور
ہر طرف یہ شور ہو کہ کیسی اچھی محفل ہے ۔کیونکہ (اس خواہش کا دل میں پیدا ہونا)
دنیا کی طرف جھکاؤ اور ریا کاری کی علامت ہے۔اور یہ چیز حق سے غافل ہو نے کی وجہ
سے پیدا ہوتی ہے ۔بلکہ ہونا تَو یہ چاہیے کہ تیرا عزم و ارادہ یہ ہو کہ ( تُو اپنے
وعظ وبیان کے ذریعے ) لوگوں کو دنیا سے آخرت کی طرف راغب کرے، گناہوں سے نیکیوں
کی طرف ، حرص و لالچ سے زہد و بے رغبتی کی طرف، بخل و کنجوسی سے سخاوت کی طرف ،
غرور سے تقوٰی وپرہیز گاری کی طرف، (ریاکاری سے اخلاص کی طرف ، تکبر سے عاجزی و
انکساری کی طرف ، غفلت سے بیداری کی طرف) مائل کرنے کی کوشش کرے ۔ ان کے دلوں میں آخرت
کی محبت پیدا کر کے دنیا کو ان کی نظروں میں قابل نفرت بنا دے ۔ اور انہیں عبادت و
زہد کے علم سے مالا مال کرے ۔ کیونکہ انسان کی طبیعت میں اس بات کا غَلَبہ ہے کہ
وہ شریعت مطہَّرہ کی سیدھی راہ سے پھر کر اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی والے کاموں اور
بیہودہ عادات و اطوار میں جلد مشغول ہو جا تا ہے۔ لہٰذا ان کے دلوں میں خوف ِخدا
عزَّوجلْ اور تقوٰی و پرہیز گاری پیدا کر اور انہیں ( وقتِ ِنزع اور قبرو آخرت میں
) پیش آنے والے خطرات و مشکلات سے ہر ممکن ڈرانے کی کوشش کر، شاید ایسا کرنے سے ان
کے ظاہری و باطنی مُعامَلات میں تبدیلی رُونُماہو۔ اور وہ(سچّی توبہ کرکے ) اﷲ تعالیٰ
کی عبادت و اطاعت میں شوق و رغبت کا مظاہرہ کریں ۔ معصیت و نافرمانی سے بیزاری
اختیار کریں ( اور سنّتوں کے سانچے میں ڈھل جائیں) یہی وعظ وبیان کا طریقہ ہے ۔اور
ہر وہ وعظ وبیان جس میں یہ خو بیاں نہ ہوں تو وہ(وعظ و بیان ) واعِظ و مُبلِّغ اور
ہر سننے والے کے لیے وبال کا باعث ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ ( واعِظ و
مُبلِّغ ) مختلف رنگ بدلنے والا جن اور شیطان ہے۔ جو لوگوں کو سیدھی راہ سے دور
کرکے انہیں ہلاکت و رسوائی، تباہی و بربادی کے گڑھے میں پھنک دیتا ہے ۔پس لوگوں پر
لازم ہے کہ وہ ایسے واعظ سے دور بھاگیں کیونکہ دین کو نقصان جتنا ایسے واعظ پہنچاتے
ہیں اتنا شیطان بھی نہیں پہنچاتا۔ لہٰذا جسے قوت و طاقت حاصل ہو، اس پر یہ لازم
اورضروری ہے کہ وہ ایسے ( فتنہ و فسا د پھیلانے والے ) واعظ کو (اگر ممکن ہو تَو
)مسلمانوں کے منبرسے نیچے اُتار دے ، اور اسے ایسا ( وعظ وبیان) کرنے سے ( نہایت
سختی سے ) باز رکھے ۔کیوں کہ ایسا کرنا اَمْرٌ
بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہْیٌ عَنِ الْمُنْکَر یعنی
نیکی کی دعوت دینا اوربرائی سے منع کرنا ہی ہے ۔
اُمراء سے میل جول؟
تیسری
نصیحت :جن کاموں سے تجھے دور رہنا ہے، ان میں سے تیسرا اَمر یہ ہے کہ تواُمَراء وسلاطین
سے میل جول نہ رکھے بلکہ ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ کیو ں کہ ان کی
طرف دیکھنا ، ان کے پاس بیٹھنا ، ان کی ہم نشینی اختیار کرنا بہت بڑی آفت و مصیبت
ہے ۔اور اگر کبھی ان کے ساتھ مل بیٹھنے کا اتفاق ہو، تو ہرگز ہر گز ان کی تعریف و
توصیف نہ کرنا۔ کیوں کہ جب کسی ظالم و فاسق کی تعریف کی جاتی ہے، تو اﷲ تعالیٰ سخت
ناراض ہو تا ہے۔ اور جو ظالموں اور فاسقوں کی درازی عمر کی دعا کرتا ہے ،گویا اس
بات کو پسند کرتا ہے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو ۔
اُمراء کے تحفے یا شیطان کا وار؟
چو
تھی نصیحت :منع کردہ اُمور میں سے آخری یہ ہے کہ اُمَراء سے کسی قسم کے تحائف و
نذرانے قَبول نہ کرے۔ اگر چہ یہ بات تیرے علم میں ہو کہ یہ حلال کی کمائی سے پیش کیے گئے
ہیں ۔ اس لیے کہ عطیّات و تحائف میں سے کسی چیز کی طرف بھی دل کا مائل اور راغب ہو
نا اور اس کی لالچ و طمع رکھنا دین میں بگاڑ پیدا کرتا ہے ۔( اوراس کا نتیجہ یہ
ہوتا ہے ) کہ ان کے لیے دل میں نرم گوشہ ، ظلم میں تعاون اور طرفداری جیسے جذبات
پیدا ہوتے ہیں ۔ اور یہ سب کچھ دین میں بگاڑو فساد ہی تو ہے۔ اس کا کم سے کم نقصان
یہ ہے کہ جب تُو ان کے تحائف و نذرانے قبول کریگا اور ان کے منصب سے فائدہ اُٹھائے
گاتو لازماً ان سے مُحبّت بھی کرنے لگے گا۔ اور آدمی جس سے مُحبّت کرتا ہے ،اس کی
درازی عمر اور سلامتی و بقا بھی چاہنے لگتا ہے۔ اور ظالم کی سلامتی و بقا کو پسند
کرنا درحقیقت مخلوقِ خدا عزَّوجلْ پر ظلم و ستم کرنا ہے۔ اور یہ دنیا کو ویران و برباد
کرنے کے مترادف ہے۔ تَو اس سے بڑھ کر دنیا و آخرت کے لیے کو ن سی چیز زیادہ نقصان
دہ ہو سکتی ہے ؟خبردار ! شیطان لعین ومردودکے فریب میں مت آنا ۔اور نہ ہی ان لوگوں
کے ،جو کہتے ہیں کہ ان ( اُمَراء سے ) درہم و دینا ر لے کر فقراء و مساکین میں
تقسیم کرنا بہتر ہے کیونکہ یہ اپنا مال نافرمانی اور گناہوں کے کاموں میں خرچ کرتے
ہیں ۔ لہٰذا اسی مال کو غریب و نادار مسلمانوں پر خرچ کرنا اس سے کہیں بہتر ہے۔
حالانکہ شیطان ملعون اس وار سے نہ جانے کتنے لوگوں کو تباہ وبرباد کرچکا ہے ۔ اس
بحث کو مزید دیگر آفتوں کی تفصیل کے ساتھ ہم نے '' اِحیا ء العُلُوم '' میں ذکر کر
دیا ہے ۔تفصیل کے لیے وہاں سے دیکھ لو ۔
وہ
چار چیزیں جن پر سختی سے عمل پیرا ہونا ہے ،یہ ہیں ۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق کا طریقہ
پا
نچو یں نصیحت:ہر وہ
معاملہ جو تیرے اور اﷲ تعالیٰ کے درمیان ہو، وہ اس انداز و ادا سے ہو ،کہ اگر تیرا
غلام وہ کام کرتا، تَو تُو اس سے خوش ہو جاتا، اس پر ناراضگی اور غصّے کا اظہار
نہیں کرتا ۔اور جب تُو اپنے حکم کی خلاف ورزی پر ، اپنے مجازی غلام سے راضی نہیں
ہوتا تو خدائے اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن عزَّوجلْ کی حکم عَدولی و نافرمانی سے اس کی
رضا و خوشنودگی کیسے حاصل ہو گی ؟جبکہ و ہ تیرا مالکِ حقیقی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں سے تعلق کا طریقہ
چھٹی
نصیحت :لوگوں سے تیرا سُلوک اس طرح ہو جیساکہ تُو چاہتا کہ وہ تیرے ساتھ برتاؤ
کریں ۔کیونکہ بندے کا ایمان اس وقت کامل ہوتا ہے، جب وہ تمام لوگوں کے لیے وہی کچھ
پسند کرے ،جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے ۔
علم و مطالعہ کی نوعیت
سا
تو یں نصیحت: تجھے ایسے علم کا
مطالعہ کرنا چاہیے جو تزکیہ نفس اوردل کی اصلاح کا باعث ہو۔جیسے اگر تجھے پتہ چل جائے
کہ میری عمر کا صرف ایک ہفتہ باقی ہے۔ تَو یقینا تُوان اَ یّام کو فقہ و مُناظرہ ،
اُصول وکلام اور دیگر عُلُوم کے حُصول پر ہر گز صرف نہیں کریگا۔ کیونکہ تجھے معلوم
ہے کہ اب مذکورہ عُلُوم تجھے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے ۔بلکہ تُو اپنے دل کی
نگہداشت و نگرانی میں مشغول ہو جائے گا ۔ ہرلمحہ اس بات کا امکان موجودہے کہ اس
میں انسان کی موت واقع ہو جائے ۔
دُنیوی و اُخروی کامیابی و نجات کا مدنی نسخہ
اے لختِ جگر !نورِ نظر
!
اب
میری آخری بات غور سے سُن لے !اس میں خوب غور وفکر کر، اور اس پر عمل کر،
یقینا تیری نجات اورکامیابی کی صورت بن جائے گی۔اگر تجھے یہ معلوم ہو جائے ، کہ بادشاہِ
وقت ایک ہفتہ کے بعد تجھ سے ملنے آرہا ہے ۔ تَو مجھے معلوم ہے اور میں خوب جانتا
ہوں کہ اس عرصہ میں جہاں تیرا گمان ہو کہ بادشاہ کی نظر پڑسکتی ہے، اس کی اصلاح و
درستگی میں مشغول اور مصروف ہو جائے گا ۔ مثلاً اپنے کپڑوں کو صاف اور سُتھرا رکھے
گا ۔ اپنے بدن کی دیکھ بھال اور زیب و زینت پر خصوصی توجّہ د ے گا۔ گھر کی اِک اِک
چیز کو صاف وآراستہ کرنے کی کوشش کریگا ۔ اب تُو خوب سوچ اور سمجھ اور غور و فکر
کر کہ میں نے کس جانب اشارہ کیا ہے ۔تُوتَو بڑاسمجھدار اور فہیم ہے۔ اور عقل مند
کے لیے تَواشارہ ہی کافی ہے ۔ رسولوں کے تاجدار ، غیبوں سے خبردار باذنِ پروردگار
عزَّوجلْ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم کا فرمانِ مشکبارہے ۔
اِنَّ اللہَ لَایَنْظُرُاِلٰی
صُوَرِکُمْ وَلَا اِلٰی اَعْمَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ
وَنِیَّا تِکُمْ
اﷲ تعالیٰ تمھاری شکل و
صورت اور تمھارے ظاہری اعمال کو نہیں دیکھتا ۔وہ تَو تمھارے دلوں اور تمھاری
نیّتوں پرنظر فرماتا ہے۔
( سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب القناعۃ ج ۴ ص ۴۴۳
رقم الحدیث ۴۱۴۳ دارالمعرفۃ بیروت)
اگر
تُو احوالِ قلب کے متعلق علم کا ارادہ رکھتا ہے تو '' احیا ء العُلُوم '' اور
ہماری دیگر تصانیف کا مطالعہ کر ۔ کیونکہ کیفیاتِ قلب سے آگاہی حاصل کرنا تو فرضِ
عین ہے ۔ جبکہ دیگر عُلُوم کا حُصول فرضِ کفایہ ہے ۔مگر اس قدر علم حاصل کرنا فرض
ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرائض و اَحکام کو کامل وبہتراور اچھے طریقے سے سر
انجام دیا جاسکے ۔ اﷲ تعالیٰ تمھیں یہ علم حاصل کرنے کی توفیقِ رفیق مرحمت فرمائے ۔
حرص و طمع سے دوری
آ
ٹھو یں نصیحت:دنیاوی ساز وسامان میں سے اتنا مال وزر اپنے پاس جمع رکھ، جو تیرے
لیے ایک سال کے اخراجات و ضرویات کے لیے کافی ہو ۔ جیسا کہ محبوبِ ربّ العزَّت ،
قاسمِ نعمت ، مالکِ جنّت، عزَّوجلْ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم اپنی
بعض ا زواجِ مطہَّرات رضی اﷲ تعالیٰ عنھن کے لیے ایسا ہی کرتے ۔اور آپ صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم یہ دعا فرماتے ۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ
قُوْتَ آلِ مُحَمَّدٍ کَفَافاً
اے اﷲ! ( عزَّوجلْ) آلِ
محمد ( رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم) کی
روزی اتنی رکھ جتنی انہیں ضرور ت ہو ۔
(صحیح مسلم : کتاب الزھدوالرقائق ص ۸۸ ۱۵
رقم الحدیث۲۹۶۹ دار ابن حزم بیروت)
نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ و آلہٖ و سلَّم تمام ازواجِ مطہَّرات رضی اﷲ تعالیٰ عنھن کے لیے ایسا انتظام
نہیں فرمایا کرتے تھے ۔بلکہ ان میں سے جو یہ ضرورت محسوس فرماتیں صرف ان کے لیے یہ
اہتمام ہوتا۔ اور جو یقین کے اعلیٰ درجے پرفائز تھیں، ان کے لئے ایک آدھ دن سے
زیادہ کا انتظام کبھی نہ فرماتے ۔
دعائے خاص
پیارے بیٹے !
میں نے اس رسالہ نما
مکتوب میں تیرے سوالوں کے جوابات لکھ دئیے ہیں ۔اب ان پر سختی سے عمل شروع کر دے
اور مجھے اپنی نیک دعاؤں میں مت بھولنا۔
تو نے دُعاکے متعلق مجھ
سے پوچھا ہے ،تو کتبِ صِحاح دُعاؤں سے مالا مال ہیں۔ وہاں سے اپنے لیے کسی دُعا کا
انتخاب کر لو ۔ (بہرحال )ایک دُعا لکھ دیتا ہوں اسے اپنے قیمتی لمحات میں پڑھنا ۔ خُصوصاً
ہر نماز کے بعد ان کلمات سے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا مانگنا ۔
اَللّٰھُمَّ
اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مَنَ النِّعْمَۃِ تَمَامَھَا وَمِنَ الْعِصْمَۃِ دَوَامَھَا
وَمِنَ الرَّحْمَۃِ شَمُوْلَھَا وَمِنَ الْعَافِیَۃِ حُصُوْلَھَا وَمِنَ الْعَیْشِ
اَرْغَدَہُ وَمِنَ الْعُمرِ اَسْعَدَہُ وَمِنَ الْاِحْسَانِ اَتَمَّہُ وَمِنَ
الْاَنْعَامِ اَعَمَّہُ وَمِنَ الْفَضْلِ اَعْذَبَہُ وَمِنَ اللُّطْفِ اَقْرَبَہٗ
اَللّٰھُمَّ کُنْ لَنَا وَلَاتَکُنْ عَلَیْنَا اَللّٰھُمَّ اخْتِمْ بِالسَّعَادَۃِ
آجَالَنَا وَحَقِّقْ بِالزِّیَادَۃِ آمَالَنَا وَ اقْرِنْ بِالْعَافِیَۃِ
غُدُوَّنَا وَ آصَالَنَا وَاجْعَلْ اِلٰی رَحْمَتِکَ مَصِیْرَنَا وَمَآلَنَا
وَاصْبُبْ سِجَالَ عَفْوِکَ عَلٰی ذُنُوْبِنَا وَمُنَّ عَلَیْنَا بِاِصْلَاحِ
عُیُوبِنَا وَ اجْعَلِ التَّقْوٰی زَادَنَا وَفِیْ دِیْنِکَ اِجْتَھَادَنَا
وَعَلَیْکَ تَوَکُّلُنَا وَ اِعْتِمَادُنَا اَللّٰھُمِّ ثَبِّتْنَا عَلٰی نَھْجِ
الْاِسْتِقَامَۃِ وَ اَعِذْنَا فِی الدُّنْیَا مِنْ مُوْجِبَاتِ النَّدَامَۃِ
یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَخَفِّفْ عَنَّا ثِقْلَ الْاَوْزَارِ وَارْزُقْنَا عِیْشَۃَ
الْاَبْرَارِ وَ اکْفِنَا وَ اصْرِفْ عَنَّا شَرَّ الْاَشْرَارِ وَاعْتِقْ
رِقَابَنَا وَرِقَابَ آبَائِنَا وَاُمَّھَاوَاخَوَاتِنَا وَ مَشَایِخِنَا مِنَ
النَّارِ بِرَحْمَتِکَ یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ یَاکَرِیْمُ یَا سَتَّارُ یَا
حَلِیْمُ یَا جَبَّارُیَااللہُ یَااللہُ یَااللہُ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ
الرَّاحِمِیْنَ وَ یَا اَوَّلَ الاَّوَّلِیْنَ وَیَا آخِرَالاَّخِرِیْنَ وَیَا
ذَاالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنَ وَیَا رَاحِمَ الْمَسَاکِیْنَ وَیَا اَرْحَمَ
الرَّاحِمِیْنَ لَا اِلہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ
الظَّالِمِیْنَ
اے
اﷲ عزَّوجلْ !مجھے نعمت کا ملہ عطافرما۔ مجھے دائمی عصمت عطاکر۔مجھے ایسی رحمت عطا
فرماجو میرے تمام اُمور و معاملات کو شامل ہو ۔ و ہ خیر و عافیت عطا فرما جو ہمیشہ
مجھے حاصل رہے ۔خوشحال زندگی عطا فرما۔سعادتوں سے لبریز عمرِ طویل عطا فرما۔کامل و
مکمل احسان عطا فرما.....اپنے خُصوصی انعام و اکرام سے نواز دے..... اپنا فضل و
کرم عطا فرما ...... یااﷲعزّوجلّ! میں ایسے لطف و کرم کا سُوالی ہوں ....جو مجھے
تیری بارگاہ کے مزید قریب کر دے۔اے اﷲ عزّوجلّ! ہمیں فائدے عطا فرما۔ہر نقصان سے
محفوظ و مامون رکھ..... ہمیں سعادت و عافیت کی موت عطا ہو ۔ہماری اُمیدیں پوری
فرما۔ بلکہُ امیدوں سے بڑھ کر عطافرما۔ ہماری صبح و شام کو عافیت سے ہم کنار فرما۔
ہمارا انجام و اختتام اپنی رحمت کی جانب فرما ۔ ہمارے گناہوں کی سیاہی پر اپنی
مغفرت کی بارش برسادے ہمارے عیبوں کو معاف فرما کر ہم پر احسان فرما۔ تقوٰی و
پرہیز گاری ہمار ا زادِ راہ بنا دے ہماری ہر کوشش و محنت اپنے دین کی سر بلندی کے
لیے قبول فرما۔ تجھی پر ہی ہمار ا بھروسا اور تیری ہی ذات پر ہمارا تَوَکُّل ہو۔
اے اﷲ عزّوجلّ! ہمیں استِقامت پر ثابت قدم رکھ ۔ ہرایسے افعال و اعمال سے بچالے جو
بروز ِ حشر شرمندگی کا باعث ہوں ۔ گناہوں کا بوجھ ہلکا فرما۔نیک لوگوں جیسی زندگی
عطا
(وصلی اللہ تعالیٰ علیہ و سیدنا
محمد و آلہ و صحبہ اجمعین و الحمدللہ رب العالمین)
No comments:
Post a Comment