(ایُّھاالوَلَد) بیٹے کو نصیحت
صفحہ ۱۵ – ۲۲
اسلام کی بنیاد
بُنِيَ الْاِسْلَامُ
عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ أَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً
رَّسُوْلُ اللہِ وِ اِقِامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَاءِ الزَّکَاۃِ وَصَوْمِ
رَمَضَانَ وَ حَجِّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں
پر ہے ، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں او ر حضرت
محمد (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ و سلَّم) اللہ(عزَّوجلْ ) کے رسول ہیں، نماز
قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا ، رمضان کے روزے رکھنااور جسے استطاعت ہو اس کا حجّ اداکرنا۔
(سنن الترمذی : کتاب الایمان ، باب.ما جاء بنی
الاسلام علیٰ خمس ج ۴ ص ۲۷۵ رقم الحدیث ۲۶۱۸ دارالفکر بیروت)
اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ بِاللِّسَانِ
وَ تَصْدِیْقٌ بِالْجَنَانِ وَعَمَلٌ بِا لْاَرْکَانِ
ایمان، زبان سے اقرار ، دل
سے تصدیق اور ارکان (اسلام ) پر عمل کرنے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے
قریب کون؟
نیک
اعمال کی اہمیت اور فضیلت کے متعلق دلائل ( قرآن وحدیث میں ) اتنے ہیں کہ جنھیں
شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ بندے کا جنّت میں داخلہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و
کرم ہی سے ہو گا، لیکن اس وقت جب وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کرتے ہوئے نیک
لوگوں میں شامل ہو جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ
قَرِیۡبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾
ترجَمہ کنزُالایمان: بے شک
اللہ کی رحمت نیکوں سے قریب ہے۔ ( الاعراف/ ۵۶)
اور اگر یہ کہا جائے کہ صرف صاحب ِایمان ہونا ہی جنّت میں داخلے کے لیے کافی ہے۔
(اور عمل کی ضرورت نہیں ) تو ہم کہیں گے کہ آپ کا کہنا درست ہے ۔مگر اسے جنّت میں
جانا کب نصیب ہو گا ؟ وہاں تک تَو پہنچنے کے لیے اسے کافی دشوار گزار گھاٹیوں اور
پُر خار وادیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ جن میں سے پہلا مشکل ترین مرحلہ تو ایمان
کی گھاٹی ہے۔کیا خبر یہ اپنا ایمان بھی سلامت لے جانے میں کامیا ب ہوگا یا نہیں
؟اور اگر ( اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وقتِ نزع اس کا ایمان محفوظ رہااور یہ )
جنّت میں داخل ہو بھی گیا تَو پھر بھی مفلس جنّتی ہوگا ۔جیسا کہ حضرت سیِّدُنا حسن
بصری علیہ رحمۃ الباری فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا ۔ ''
اے میرے بندو! میری رحمت سے جنّت میں داخل ہو جاؤ اور اسے اپنے اعمال کے مطابق
تقسیم کر لو ''۔
شانِ رحمتِ خداوندی عزَّ
وجل
اے
لختِ جگر !
جب تک
تُو با عمل نہیں ہو گا اجر و ثواب نہیں پائے گا ۔ منقول ہے کہ بنی اسرائیل کے
ایک عابد نے ستر سال تک
اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ۔ ربّ ِکریم عزَّوجلْ نے ارادہ فرمایا کہ اس کی شان و
عظمت فرشتوں پر ظاہر ہو، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا تا کہ اسے
یہ بتا دے کہ اس قدر زہد و عبادت کے با وجود تُو جنّت کا مستحق نہیں ۔ چنانچہ
فرشتہ اس عابد کے پاس آیااور اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا۔اس نیک شخص نے جواب دیا
۔'' اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اور ہمارا کام اس کی
عبادت کرنا ہے''۔ (اب یہ خالق و مالک عزَّوجلْ کی مرضی ہے کہ محض اپنے کرم سے داخل
جنّت فرمادے یا عدل کرتے ہوئے جہنّم میں جھونک دے) جب فرشتہ ربِّ کائنات عزَّوجلْ
کی بارگاہ ِعزّت میں حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا۔'' میرے بندے نے کیا جواب
دیا ؟'' فرشتہ کہنے لگا ''یااِلٰہ ا لعالمین (عزَّوجلْ) تو اپنے بندے کے جواب سے
بخوبی واقف ہے ''۔ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا'' جب میرا بندہ میری عبادت سے
جی نہیں چُراتا ،تو میری شانِ کریمی کا تقاضا ہے کہ میں بھی اس سے نظرِ رحمت نہ
پھیروں۔ اے فرشتو! گواہ رہو! میں نے اس کی مغفرت فرما دی ''۔
محبوبِ
پروردگار ، امّت کے غم خوار ، بے کسوں کے مددگار ، ہم غریبوں کے غم گسار ، شفیعِ روزِ
شُمارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے۔
حاَسِبُوْاأَنْفُسَکُمْ
قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا وَ زِنُوْاأَعْمَالَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُوْزَنُوْا
اس سے پہلے کہ تمہارا حساب
ہو اپنا حساب خود کر لو ۔اوراپنے اعمال کا وزن کر لو قبل اس کے کہ انھیں تولا جائے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت اور
نیک اعمال
شیرِ
خدا مَولیٰ علی مشکل کشا کرَّم اللہ تعالیٰ وجھہٖ الکریم ارشاد فرماتے ہیں ۔ '' جو
شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نیک اعمال اپنائے بغیر داخلِ جنّت ہو گا، تو وہ جھوٹی
اُمید و آس کا شکار ہے ۔ اور جس نے یہ خیال کیا کہ نیک اعمال کی بھر پور کوشش سے
ہی جنّت میں داخل ہو گا، تو گویا وہ
اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی
رحمت سے مُستغنی و بے پرواہ سمجھ بیٹھا ہے ''۔ اور حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمتہ
الباری فرماتے ہیں ۔''اعمال حَسَنہ کے بغیر جنّت کی تمنّا رکھناگناہ سے کم نہیں
''۔ اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کا ارشاد گرامی ہے ۔ ''حقیقتی بندگی کی علامت
یہ ہے کہ بندہ عمل پر اِترانا چھوڑ دے ،نہ کہ عمل کرنا ہی ترک کر دے''۔
سرکارِ دو عالم ، نورِ
مُجسّم ، شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعظّم ہے ۔
اَلْکَیَّسُ مَنْ دَانَ
نَفْسَہٗ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَ الْاَحْمَقُ مَنِ اتَّبَعَ نَفْسَہٗ
ھَوَاھَا وَتَمَنَّی عَلَی اللہِ
عقل مند اور سمجھدار وہ ہے
جو اپنے نفس کا مُحاسبہ کرے ،اور موت کے بعد والی زندگی کے لئے عمل کرے ۔ اور
اَحمق و نادان وہ ہے جس نے نفسانی خواہشات کی پیروی کی اور اللہ تعالیٰ ( کی رحمت
سے جنّت ملنے کی) اُمید رکھی۔
( فتح الباری : کتاب النکاح . قولہ اذا دخلت
لیلاً....اِلخ ج ۹ ص ۳۴۲ دار المعرفۃ بیروت )
حُصولِ علم و مطالعہ کا
صحیح مقصد
اے پیارے
بیٹے!
تُو
کتنی ہی راتیں کو جاگ جاگ کر حُصولِ علم میں مشغول و مصروف رہا ۔ اور کتب بینی میں
اپنے اوپر نیند حرام کی ۔میں نہیں جانتا کہ تیری اس محنت و مشقت کا سبب کیا تھا
؟اگر تیری نیّت دنیوی فائدے حاصل کرنے ،دنیا کے منصب اور عہدوں کے پانے اوراپنے
زمانے کے لوگوں پر اپنی برتری اور بڑائی ظاہرکرنے کی تھی تو، (کان کھول کر سُن لے!
) تیرے لیے ''ہلاکت'' ہے ، تیرے لیے ''بربادی ''ہے ۔اور اگر ان شب بیداریوں میں
تیری نیّت یہ تھی کہ تو حبیب ِ پروردگار، امِّت کے مددگار ، شفیعِ روزِ شُمار،
جناب ِ ا حمدِمُختار ، عزَّوجلْ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلَّم کی پیاری
پیاری شریعت (اورسنّت )کا پیغام عام کریگا ، اپنے کردار و اَخلاق
کو سنّتوں کے سانچے میں
ڈھالے گا۔ اور نفسِ امّارہ ، جو کہ ہمیشہ برائی کی طرف بُلاتا ہے ، اس کی شرارتوں
سے بچنے کی بھر پور کوشش کریگا تو تجھے '' مُبارک '' ہو ،تیرے لیے'' خوشی ''ہے ۔
کسی
شاعر نے سچ ہی کہا ہے۔
سَھَرُ الْعُیُوْنِ
لِغَیْرِ وَجْھِکَ ضَائِعٌ وَ
بُکَاؤُھُنَّ لِغَیْرِ فَقْدِکَ بَاطِلٌ
تیرے رُخِ زیبا کے دیدار
کے علاوہ کسی غیر کے لیے ان آنکھوں کاجاگتے رہنا بیکار ہے ۔ اور تیرے علاوہ کسی
اور کے فِراق میں ان کا رونا باطل وعَبَث ہے ۔
اے نورِ نظر !
(
حدیثِ پاک میں آیا ہے ۔)
عِشْ مَا شِئْتَ
فَاِنَّکَ مَیِّتٌ وَ أَحْبِبْ مَا شِئْتَ فَاِنَّکَ مُفَارِقُہُ وَ اعْمَلْ
مَاِشئْتَ فَاِنَّکَ تُجْزٰی بِہٖ
جیسے چاہے زندگی گزارو ،
آخرِ کار تمہیں مرنا ہے ۔ اور جس سے چاہو محبت کرو، ایک نہ ایک دن تم اس سے جدا ہو
جاؤ گے۔ اور جیساچاہے عمل کرو ،با لآخر اس کا بدلہ ضرور دئیے جاؤ گے ۔
اے لختِ جگر !
علمِ
کلام و مُنا ظَرہ ، علمِ طبّ ، علمِ دَواوین و اشعار ، علمِ نُجُوم و عُروض ، علمِ
نَحوْ و صَرْف (جن کے حاصل کرنے کا مقصد اگر دنیوی شُہرت کا حُصول اور لوگوں پر
اپنی بڑائی و برتری کا اظہار تھا )تو سوائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں اپنی عُمر
کا قیمتی وقت ضائع کرنے کے تیرے ہاتھ کیا آیا ؟
میِّت سے چالیس سُوال
میں نے
اِنجیلِ مُقدّس میں یہ لکھا ہوا پایا، کہ حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ علیٰ نبیّنا و علیہ
الصَّلوٰۃ
والسَّلام ارشاد فر ماتے
ہیں ۔ جس وقت میِّت کو چارپائی پر رکھ کر قبر تک لایا جاتا ہے ، اس دوران اللہ
تعالیٰ اس میِّت سے چالیس سُوال کرتا ہے ۔ ان میں سے پہلا سُوال یہ ہے ۔ '' اے
میرے بندے ! لوگوں کو حسین و جمیل نظر آنے کے لیے برسوں تُو اپنے آپ کو سنوارتا
رہا ، لیکن جس چیز (یعنی دل )پر میری نظرِ (رحمت) ہوتی ہے ۔ اسے تُو نے ایک لمحہ
بھی پاک اور صاف نہ کیا ؟ ''(اے انسان ! ) ہر روز اللہ تعالیٰ تیرے دل پر نظر کرتا
اور ارشاد فرماتا ہے ۔ تیرازیب و زینت کرنا لوگوں کو دکھانے کے لیے ہوتا ہے ،
حالانکہ تُو میری طرف سے حاصل کردہ بھلائیوں ( نعمتوں )میں گھِرا ہوا ہے ۔ ( پھر
بھی میری فرمانبرداری و اطاعت کی طرف مائل نہیں ہو تا ؟ ) کیا تُو بہرہ ہو چکا ہے
؟ تجھے کچھ سنائی دیتا ہے ؟ ''
غیر مفید اور بے فائدہ علم
اے پیارے بیٹے!
علم کے بغیر عمل پاگل پن اور دیوانگی سے کم نہیں ۔ اور عمل بغیر علم کے نا ممکن
ہے۔ (اس بات کو اپنی گرہ سے باندھ لو! کہ ) جو علم آج تجھے گناہوں سے دُور نہیں کر
سکا ، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت ( و عبادت ) کا شوق پیدا نہ کر سکا ، تَو یاد رکھ
! یہ کل قیامت میں تجھے جہنّم کی ( بھڑکتی ہو ئی ) آگ سے بھی نہیں بچا سکے گا ۔
اگر آج تُو نے نیک عمل نہ کیا، ( سنّتوں کے سانچے میں ڈھل کر با عمل نہ بنا ) اور
گزرے ہوئے وقت کا تَدارُک نہ کیا، تَوکل قیامت میں تیری ایک ہی پُکار ہوگی ۔
فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ
صَالِحًا
ترجَمہ کنزُالایمان: ہمیں
پھر بھیج کہ نیک عمل کریں۔ ( السّجدہ/ ۱۲)
تَو تجھے جواب دیا جائے گا
، اے اَحمق و نادان ! تُو وہیں سے تَو آرہا ہے۔
اے لختِ جگر!
روح
میں ہمّت پیدا کر ، نفس کے خلاف جہاد کر اور موت کو اپنے قریب تر جان ۔ کیونکہ
تیری منزل قبر ہے ۔اور قبرستان والے ہر لمحہ تیرے مُنتظرہیں ۔ کہ تُو کب ان کے پاس
پہنچے گا ؟خبردار ! خبردار ! ڈر اس بات سے کہ بغیر زادِ راہ کے تُو ان کے پاس پہنچ
جائے ۔
سعادت مند اور بد بخت
امیرُ المؤمنین حضرت
سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ۔
یہ جسم پنجرے ہیں پرندوں
کے لیے ( یعنی ایسی سعادت مند روحوں کے لئے ،جو ہر لمحہ عالم بالا کی جانب پرواز
کے لئے بیتاب ہیں ) یا یہ جسم اَ صطبل ہیں جانوروں کے لیے( یعنی ایسی روحوں کے لئے
جو نیک اعمال سے دور ہیں )
پس تُواپنی ذات میں غور کر
کہ ان دونوں میں سے تیرا شُمار کس کے ساتھ ہے ؟اگرتُو عالمِ بالا کی جانب پرواز کے
لئے بیتاب پرندوں میں سے ہے ۔تَو جب تَوتُو ( موت کے وقت ) یہ مَسحُور وخوش کُن
آواز سنے گا ۔
اِرْجِعِیْ اِلٰی
رَبِّکِ
ترجَمہ کنزُ الایمان:اپنے
ربّ کی طرف واپس ہو۔ ( الفجر/ ۲۸)
تَو فوراً تُو بلندیوں کی
طرف پرواز کریگا ۔ اور جنّت کے اعلیٰ مقام پر جا پہنچے گا ۔جیسا کہ سیِّدِ اِنْس و
جان ، رحمتِ عالمیان ،نبی ذیشان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ۔
اِھْتَزَّ عَرْشُ
الرَّحْمٰنِ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
سعد بن معاذ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی موت سے عرشِ رحمٰن عزَّوجلْ فر حت و شادمانی سے جھوم اُٹھا۔
( صحیح البخاری : کتاب مناقب الانصار ، باب. مناقب
سعد بن مُعاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ج ۲ ص ۵۶۰
رقم الحدیث ۳۸۰۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
اور اللہ تعالیٰ کی پناہ
کہ تیر ا شُمار جانوروں میں ہو ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ۔
اُ ولٰئِکَ
کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَ ضَلُّ
ترجَمہ کنزُالایمان: وہ چوپایوں
کی طرح ہیں۔ بلکہ اُن سے بڑھ کر گمراہ۔ ( الاعراف /۱۷۹)
پس
ایسی صورت میں بے خوف نہ ہو کہ، اس دنیا سے سیدھا جہنّم کی آگ میں جانا پڑے گا ۔
ایک
مرتبہ حضرت سیِّدُنا حسن بصری علیہ رحمتہ الباری کی خدمت میں ٹھنڈا پانی پیش کیا
گیا ۔ پیالہ ہاتھ میں لیتے ہی آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ پر غشی طاری ہو گئی اور
پیالہ دستِ مبارک سے نیچے گر گیا ۔ جب کچھ دیر بعد اِفاقہ ہواتَو لوگوں نے پوچھا ۔
اے ابُو سعید !آپ کو کیا ہو گیا تھا ؟ فرمایا مجھے جہنّمیوں کی وہ اِلتجائیں یاد
آگئیں ، جو وہ جنّتیّوں سے کریں گے ۔
اَنْ اَفِیْضُوْا
عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ
ترجَمہ کنزُالایمان: کہ
ہمیں اپنے پانی کا فیض دو یا اُس کھانے کا جو اللہ نے تمھیں دیا ۔ ( الاعراف /۵۰)
No comments:
Post a Comment