(ایُّھاالوَلَد)
بیٹے کو نصیحت
صفحہ ۲۸– ۳۴
مُرید کے لیے لازم اور ضروری اُمور
سالک ( مرید) کے لیے چار
چیزیں ضروری ہیں ۔
(۱)ایسا صحیح عقیدہ جس میں بدعت شامل نہ ہو ۔
(۲)ایسی سچّی توبہ کہ پھر گناہوں کی طرف نہ پلٹے ۔
(۳)جو ناراض ہیں انہیں راضی رکھنا، تاکہ اس پر کسی کا
کوئی حق باقی نہ رہے ۔
(۴)اتنا علمِ دین حاصل کرنا کہ اﷲ تعالیٰ کے اَحکامات
کوبہتر طریقے سے ادا کیا جاسکے ۔ پھر عُلُومِ آخرت میں سے بھی اتنا علم ہو کہ جس
پر عمل کرنے سے نجات ممکن ہو
چار ہزار احادیث میں سے صرف ایک؟
حضرت سیِّدُنا
شیخ شِبلی علیہ رحمۃالولی نے چار سو علماء کرام کی خدمت میں رہ کر علم دین حاصل
فرمایا ۔آپ رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں۔ میں نے چار ہزار احادیث مبارکہ
پڑھیں ،پھر میں نے ان میں سے ایک حدیثِ پاک کو منتخب کیا اور اس پر عمل پیرا ہوا
اور باقی حدیثوں کو چھوڑ دیا ۔ کیونکہ میں نے اس حدیثِ پاک میں خوب غور و فکر کیا
،تو عذابِ الہٰی عزَّوجلْ سے چھٹکارا، اور اپنی نجات وکامیابی اسی میں پائی۔ اور
عُلُومِ اوّلین و آخرین کو اس میں موجود پایا ۔لہذا اسے اپنے عمل کے لیے کافی قرار
دیا۔ وہ ( پیاری پیاری، مَہکی مَہکی) حدیثِ مبارکہ یہ ہے۔ کہ رسولِ اکرم، رحمتِ د
و عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم نے بعض صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ
علیھم اجمعین سے ارشاد فرمایا۔
اِعْمَلْ لِدُنْیَا کَ بِقَدْرِ
مَقَامِکَ فِیْھَا وَ اعْمَلْ لِآخِرَتِکَ بِقَدْرِ بَقَاءِ کَ فِیْھَا وَ اعْمَلْ
لِلّٰہِ بِقَدْرِ حَاجَتِکَ اِلَیْہِ وَاعْمَلْ لِلنَّارِ بَقَدْرِ صَبْرِکَ
عَلَیْھَا
(ترجمہ ) جتنا دُینا میں
رہنا ہے، اُتنا دنیا کے لیے ، اور جتنا عرصہ قبرو آخرت میں رہنا ہے ، اُتنی
قبروآخرت کی تیاری میں مشغول ہو جا ۔ اور اﷲ تعالیٰ کیلئے اتنا عمل کر جتنا تُو اس
کا محتاج ہے۔ اور نارِ جہنّم کے لیے اتنا عمل کر جتنی تجھ میں قوتِ برداشت ہے ۔
اے نورِ نظر !
جب تو
اس حدیثِ پاک پر ہی عمل کریگا ،تو پھر تجھے کثرتِ علم ( غیر ضروری ) کی کچھ ضرورت
نہیں ۔(بلکہ صرف اور صرف اپنے علم پر عمل ہی کی ضرورت ہے)
تیس سالہ دورِ طالبِ علمی کا حاصل
ایک اور حکایت سے اپنے لیے
عمل کا جذبہ حاصل کرلے،کہ حضرت سیِّدُنا حاتم اصم علیہ رحمۃ الحَکَم، حضرت
سیِّدُنا شفیق بلخی علیہ رحمۃ الحیّی کے شاگردوں میں سے تھے ، ایک دن حضرت
سیِّدُنا شفیق بلخی علیہ رحمۃ القوی نے پوچھا اے حاتم! ( علیہ رحمۃ الحَکَم) تُو
نے تیس سال میری صحبت میں گزار ے، اتنے عرصہ میں تُو نے کیا حاصل کیا ؟حضرت
سیِّدُنا حاتم اصم علیہ رحمۃ الحَکَم نے جواب دیا ۔میں نے علم کے آٹھ فوائد حاصل
کیے ہیں، جو کہ میرے لیے کافی ہیں ۔( کہ ان پر اخلاص و استقامت کے ساتھ عمل کی
صورت میں ) مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب سے نجات پاجانے میں کامیاب
ہو جاؤں گا ۔ حضرت سیِّدُنا شفیق بلخی علیہ رحمۃ الحیی ّنے فرمایا ۔ بتاؤ وہ آٹھ
فوائد کون کون سے ہیں ؟حضرت سیِّدُنا حاتم اصم علیہ رحمۃ الحَکَم ارشاد فرمانے
لگے۔
پہلا فائدہ:
میں نے لوگوں کو بنظرِ غور
دیکھا کہ ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی محبوب و معشوق ہے، جس سے وہ محبت کرتا ہے
او ر عشق کا دم بھرتا ہے ، لیکن لوگوں کے محبوب ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی مرضُ الموت
تک ساتھ دیتے ہیں اور کچھ قبر تک ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ پھر ان میں سے ہر ایک واپس
لوٹ آتا ہے۔ اور اسے قبر میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں ۔اور ان میں سے کوئی بھی اس کے
ساتھ قبر میں نہیں جاتا ۔لہٰذا میں نے غور و فکر کیا اور اپنے
آپ سے کہا۔بندے کا سب سے
اچھا ، محبوب اور بہترین دوست تو وہ ہے جو اس کے ساتھ قبر میں جائے اور وہاں کی
وحشت و گھبراہٹ کی گھڑیوں میں اس کا مُونس اور غم خوار ہو، تو مجھے سوائے '' نیک
اعمال '' کے کوئی اس قابل نظر نہ آیا تو میں نے نیک اعمال سے دوستی کر لی۔ (
سنّتوں کا عامل بنا) تاکہ یہ میری قبر کو روشن کریں اور مجھے ان سے اُنس ملے اور
یہ مجھے تنہا نہ چھوڑیں ۔
دوسرا فائدہ :
میں نے لوگوں کو دیکھا کہ
وہ اپنی اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور اپنے نفس کی ہر خواہش کو پورا کرنے
کیلئے بڑی تیزی سے کام لیتے ہیں ۔چنانچہ میں نے ربّ ِکریم عزَّوجلْ کے اس ارشادِ
گرامی میں غور و فکر کیا ۔
وَ اَمَّا مَنْ خَافَ
مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾
ترجَمہ کنزُ الایمان:اور
جو اپنے ربّ کے حُضورکھڑے ہو نے سے ڈرا ،اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنّت
ہی ٹھکانہ ہے ۔ (النّٰزعٰت / ۴۱،۴۰)
مجھے یقین ہے کہ قرآنِ
حکیم حق ،اور اﷲ تعالیٰ کا سچاکلام ہے۔ لہذامیں نے اپنے نفس کی مخالفت شروع کردی۔
اور ریاضت و مجاہدات کی طرف مائل ہوا۔ اور نفس کی کوئی خواہش اس وقت تک پوری نہ
کی، جب تک یہ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں راضی نہ ہوا۔ یہاں تک کہ اس نے
اَحکامِ الٰہی عزَّوجلْ کے سامنے اپنے سر کو جھکا دیا۔ اور سچا مطیع و فرمانبردار
بن گیا۔
تیسرا فائدہ:
میں نے دیکھا ہر آدمی
دنیاوی مال و دولت جمع کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اور پھر بڑا خوش ہے کہ اس کے
پاس بہت سامان و متاع ہے ۔ پس میں نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشادِ پاک پر غور کیا ۔
مَاعِنْدَکُمْ
یَنْفَدُ وَمَاعِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ ۔
ترجَمہ کنزُالایمان: جو
تمھارے پاس ہے ہو چکے گا اور جو اﷲ کے پاس ہے ہمیشہ رہے گا ۔
( النحل / ۹۶)
تَومیں نے جو کچھ جمع کیا
تھا ،اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے مسکینوں میں تقسیم کر دیا تاکہ یہ ربِّ کریم
عزَّوجلْ کے پاس ذخیرہ ہو جائے ،اور مجھے آخرت میں اس سے فائدہ پہنچے ۔
چو تھا فائدہ:
میں نے دیکھا کہ بعض لوگوں
کا خیال ہے کہ شان و شوکت اور عزّت و شرافت کا میعار بڑی قوم اور قبیلے سے تعلق
رکھنے کی بنا پر ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے لوگ اپنے آپ کو معزَّزّ و مکرَّم سمجھتے ہیں ۔
بعض کا گمان یہ ہے کہ دولت
کی فراوانی اور کثرتِ اہلُ و عَیال سے عزّت ملتی ہے۔ ایسے لوگ اپنی دولت اور اولاد
پر فخر کرتے ہیں ۔
بعض لوگ ایسے ہیں ،جو اپنی
عزّت و شرافت دوسروں کا مال لوٹنے ،ان پر ظلم کرنے اور ان کا خون بہانے میں سمجھتے
ہیں ۔
بعض لوگوں کی سوچ یہ ہو تی
ہے کہ مال ضائع کرنے اور اِسراف و فُضول خرچی ہی میں عزّت و بزرگی پوشیدہ ہے ۔جب
میں نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشادِ مبارک پر غور کیا ۔
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ
عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ
ترجَمہ کنزُالایمان: بے شک
اﷲ کے یہاں تم میں زیادہ عزّت والا وہ ہے، جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے ۔ (
الحجرات / ۱۳)
تَو میں نے تقوٰی اور پرہیز
گاری کو اختیار کیا۔ اور میں نے یقینِ کامل کرلیا کہ اﷲ تعالیٰ کاکلام حق اور سچ ہے،
جبکہ لوگوں کے گمان اورنظریات سب کے سب جھوٹے اور باطل ہیں ۔
پانچواں فائدہ:
میں نے دیکھا کہ لوگ ایک
دوسرے کی برائی بیان کرتے ہیں۔ اور خوب غیبت کا شکار ہو تے ہیں ۔اس کے اسباب پر
غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ
حسد کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔
اور اس حسد کی اصل وجہ شان و عظمت ، مال و دولت اور علم ہے تَو میں نے قرآنِ کریم
کی اس آیت پر غور کیا ۔
نَحْنُ قَسَمْنَا
بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا
ترجَمہ کنزُ الایمان: ہم
نے ان میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا۔ (الزخرف / ۳۲)
لہٰذا میں نے اس بات کو بخوبی
جان لیا کہ مال ودولت ، شان و عظمت کی تقسیم اﷲ تعالیٰ نے اَزل ہی سے فرما دی ہے (
کہ اﷲ تعالیٰ نے جس کے لیے جو چاہا مقدر فرمادیا اور اس میں کسی کو کچھ اختیار نہیں
) اس لیے میں کسی سے حسد نہیں کرتا اور ربِّ کریم عزَّوجلْ کی تقسیم و تقدیر پر
راضی ہوں ۔
چھٹا فائدہ:
میں نے لوگوں پر نگاہ
ڈالی، تو ہر ایک کوایک دوسرے سے کسی غرض اور سبب کی وجہ سے عداوت و دشمنی کرتے
پایا ۔لہٰذا میں نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد ِمبارک پر خوب غورو فکرکیا ۔
اِنَّ الشَّیْطٰنَ
لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا ۔
ترجَمہ کنزُالایمان: بے شک
شیطان تمھار ا دشمن ہے، تو تم بھی اسے دشمن سمجھو ۔ ( فاطر /۶)
پس یہ بات مجھ پر ظاہر
ہوئی کہ سوائے شیطان کے کسی اور سے ( اپنی ذات کے لیے ) دشمنی نہیں رکھنی چاہیے ۔
(تو مجھے اپنے دشمن کا سراغ مل گیا اور اس کے سوا کسی سے دشمنی نہ رہی)
ساتواں فائدہ :
میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ہرشخص
روزی اور مَعاش کی تلاش میں کافی محنت اور کوشش کے ساتھ سرگرداں ہے۔ اور اس سلسلے
میں حلال و حرام کی بھی تمیز نہیں کررہابلکہ مشکوک اور حرام کمائی کے حُصُول کے
لئے ذلیل و خوا ر ہو رہا ہے ۔ لہٰذا میں نے ربِّ کریم عزَّوجلْ کے اس ارشادِ گرامی
میں غور و فکر کیا ۔
وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ
فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا
ترجَمہ کنزُالایمان: اور
زمین پر چلنے والا کوئی ( جاندار) ایسا نہیں ،جس کا رزق اﷲ کے ذمّہ کرم پر نہ ہو۔
( ھود / ۶)
پس یہ بات مجھ پر روشن
ہوئی کہ میرا رزق اﷲ تعالیٰ پر ہے اور میرے پروردگار عزَّوجلْ نے اسے اپنے ذمّہ
لیا ہے ۔چنانچہ میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو گیا ۔اور غیر کے خیال کو اپنے
دل سے نکال دیا ۔
آٹھواں فائدہ :
میں نے دیکھا کہ ہر شخص
کسی نہ کسی پر بھروسہ کئے ہوئے ہے کسی کا بھروسہ درھم و دینار پر ہے، تو کسی کا
مال و سلطنت پر اور کسی کاصنعت و حرفت پر اور کوئی تَو اپنے جیسے لوگوں پر بھروسہ
کیے ہوئے ہے ۔ تو مجھے اﷲ تعالیٰ کے اس فرمانِ مبارک سے رہنمائی حاصل ہوئی۔
وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلْ
عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ؕ قَدْ جَعَلَ اللہُ
لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدْرًا ﴿۳﴾
ترجَمہ کنزُالایمان: اور
جو اﷲ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ بے شک اﷲ اپنا کام پورا کرنے والا ہے ۔بے
شک اﷲ نے ہر چیز کا ایک اندازہ رکھا ہے ۔ (الطلاق / ۳)
پس میں نے اﷲتعالیٰ ہی پر تَوَّکُل
و بھروسہ کیا۔ وہی میرے لیے چارہ ساز ہے۔ اور وہ بہترین کا رساز ہے ۔
جب حضرت سیِّدُنا شفیق
بلخی علیہ رحمۃ الحیّ نے یہ فائدے سماعت فرمائے ،تو ارشاد فرمایا (اے حاتم! علیہ
رحمۃ الحَکَم )اﷲ تعالیٰ تجھے ( ان پر اخلاص و استقامت کے ساتھ عمل کرنے کی )
توفیق سے مالا مال فرماد ے ۔ میں نے تَورات و اِنجیل ، زبُور اور قرآن مجید کی
تعلیمات پر غور کیا ، تو ان چاروں مقدّس آسمانی کتابوں کو انہی آٹھ فوائد پر مشتمل
پایا۔ لہٰذا جس خوش نصیب نے ان پر عمل کیا، گویا اس نے ان چار وں کتابوں پر عمل
کیا ۔
مرشِد کی اہمیت و ضرورت
اے
لختِ جگر !
ان دونوں حکایتوں سے معلوم
ہوا کہ تجھے زیادہ اور غیر ضروری علم کی ضرورت نہیں ( بلکہ اپنے علم پر عمل کی
سخت ضرورت ہے )اب میں تمھیں ان اُمور سے آگاہ کرتا ہوں کہ سالکِ طریقِ حق (
اﷲ تعالیٰ کی راہ پر چلنے والے مرید ) کے لیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔یہ
بات ذہن نشین کر لے کہ سالک کو شیخ کی ضرورت ہے ۔جو اس کی رہنمائی اور تربیّت کرنے
والا ہو ،تاکہ اس کے بُرے اَخلاق کو نکال کر اسے اچھے اَخلاق سے مزیّن کر دے ۔
تربیت
کی مثال بالکل اس طرح ہے، کہ جس طرح ایک کسان کھیتی باڑی کے دوران اپنی فصل سے غیر
ضروری گھاس، جڑی بوٹیاں نکال دیتا ہے تاکہ فصل کی ہریالی اور نشوونما میں کمی نہ آئے
۔اسی طرح سالکِ راہِ حق (مرید ) کے لیے شیخ ( مرشدِ کا مل) کا ہونا نہایت ہی ضروری
ہے۔ جو اس کی اَحسن طریقے سے تربیت کرے اور اﷲ تعالیٰ تک پہنچنے کیلئے اس کی رہنمائی
کرے ۔ ربّ ِکریم عزَّو جلْ نے انبیاء اور رسولوں علیھم الصَّلوۃ والسَّلام کو
لوگوں کی طرف اس لیے مَبعُوث فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو اﷲ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ
بتائیں، مگر جب آخری رسول، نبی مقبول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم اس
جہاں سے پردہ فرماگئے اور نُبُوَّت و رسالت کا سلسلہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و
آلہٖ و سلَّم پر ختم ہوا، تو اس منصب ِجلیل کو خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیھم
اجمعین نے بطورِ نائب سنبھال لیا اور لوگوں کو راہ حق پر لانے کی سعی و کوشش فرماتے
رہے ۔
Continued۔۔۔
No comments:
Post a Comment