(ایُّھاالوَلَد)
بیٹے کو نصیحت
صفحہ ۲۲ - ۲۸
صرف حُصُولِ علم ہی کافی نہیں
اے پیارے
بیٹے !
اگر
صرف علم حاصل کرنا ہی کافی ہوتا اوراس پر عمل کی ضرورت نہ ہوتی تَو صبحِ صادق کے
وقت اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان بے کار ہوتا ۔اور اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔
ہے کوئی اپنی حاجت طلب
کرنے والا ؟ ہے کوئی تَوبہ کرنے والا ؟ ہے کوئی گناہوں سے مُعافی چاہنے والا ؟
( مسند اما م احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (
مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) ج ۴ ص ۶۹
رقم الحدیث ۱۱۲۹۵ دار الفکر بیروت)
ایک مرتبہ کچھ صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے محبوبِ ربِّ داور ، خَلْق کے رہبر ، ساقیِ کوثر ،
شفیعِ روزِمَحشر، عزَّوجلْ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلَّم کے سامنے حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا تذکرہ کیا ۔تَو نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ و آلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ۔
نِعْمَ الرَّجُلُ
عَبْدُ اللہِ لَوْ کَانَ یُصَلِّیْ بِاللَّیْلِ
عبد اللہ ایک اچھا شخص ہے
،کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ تہجّد بھی ادا کرتا ۔
(صحیح مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالیٰ
عنہم ، باب . من فضائل عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ص ۱۳۴۶ رقم الحدیث ۲۴۷۹ دار ابن حزم بیروت )
تاجدارِ رسالت ،
شَہَنْشاہِ نُبُوَّت، مَخزنِ جُودوسخاوت، محبوبِ ربُّ العزَّت، محسنِ انسانیت
عزَّوجلْ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کسی کو ارشاد فرمایا ۔
لَاتُکْثِرِالنَّوْمَ
بِا للَّیْلِ فَاِنَّ کَثْرَۃَالنَّوْمِ بِاللَّیْلِ تَدْعُ صَاحِبَہٗ فَقِیْراً
یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
رات کو زیادہ نہ سویا کرو کیونکہ
شب بھر سونے والا ( نفلی عبادات نہ کرنے کے باعث ) بروز ِقیامت (نیکیوں کے سلسلے
میں ) فقیر ہو گا ۔ (تذکرۃُ الحفّاظ ـ: المجلّد الاوّل الجزء ۲ ص ۱۳۳ . الطّبقۃ التّاسعۃ (
الطّرطوسی الحافظ البارع ابوبکر محمد بن عیسیٰ بن یزید التّیمیمی ) دار الکتب
العلمیۃ بیروت )
اے نورِ نظر !
( قرآنِ مجید میں یہ فرمان
موجود ہے ۔ )
وَ مِنَ اللَّیْلِ
فَتَھَجَّدْ بِہٖ
ترجَمہ کنزُالایمان: اور
رات کے کچھ حصّہ میں تہجّد ادا کرو۔ ( بنی اسرآئیل / ۷۹)
یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ۔
وَ بِالْاَسْحَارِ ہُمْ
یَسْتَغْفِرُوۡنَ ﴿۱۸﴾
ترجَمہ کنزُالایمان: اور
پچھلی رات اِستغفار کرتے۔ ( ذاریات / 18)
یہ شکرہے ۔ ( یعنی قبولیتِ
توبہ کی دلیل ہے)
وَالْمُسْتَغْفِرِیۡنَ بِالۡاَسْحَارِ
﴿۱۷﴾
ترجَمہ کنزُالایمان:اور
پچھلے پہر سے مُعافی مانگنے والے۔ (آلِ عمران / ۱۷)
یہ (اللہ تعالیٰ سے مغفرت
طلب کرنے والوں کا ) ذکر ہے ۔
اللہ تعالیٰ کو محبوب تین آوازیں
خاتِمُ
المُرسلین ، رَحْمَۃٌ لِّلعٰلَمین، شفیعُ الْمُذْنِبِیْن ، اَنِیْسُ
الْغَرِیْبِیْن ، سِراجُ السَّالکین ، محبوبِ ر ب ا لْعٰلَمین ، جنابِ صادق و امین
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم ارشاد فرماتے ہیں
ثَلَاثَۃُ اَصْوَاتٍ یُحِبُّھَا
اللہُ تَعَالیٰ صَوْتَ الدِّیْک وَ صَوْتَ الَّذِیْ یَقْرَءُ الْقُرْاٰنَ وَصَوْتَ
الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَ سْحَارِ ۔
اﷲ تعالیٰ کو تین آوازیں
پسند ہیں ۔ مرغ کی آواز ( جو صبح نماز کے لیے جگاتی ہے ) تلاوتِ قرآن پاک کی آواز
اور صبح سویرے اپنے گناہوں سے مُعافی طلب کرنے والے کی آواز۔
(الفردس بمأثور الخطاب: امّ سعد رضی اللہ تعالیٰ
عنہما ج ۲ ص ۱۰۱ رقم الحدیث ۲۵۳۸ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فرشتے کی صدا
حضرت سیِّدُنا
سُفیان ثَوری علیہ ر حمۃ الباری ارشاد فرماتے ہیں ۔ ا ﷲ تعالیٰ نے ایک ہوا پیدا
فرمائی ہے۔ جو سَحَری کے وقت چلتی ہے۔ اوراس وقت ذکرِالہٰی عزَّوجلْ میں مگن اور
گناہوں سے مُعافی مانگنے میں مشغول ،خوش نصیبوں کی آوازوں کو ربِّ کریم عزَّوجلْ
کی بارگاہ میں پیش کرتی ہے ۔ آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا۔ رات
شروع ہونے پر ایک فرشتہ عرش کے نیچے سے یہ ندا دیتا ہے ، کہ اب عبادت گزاروں کو
اُٹھ جانا چاہیے۔ چنانچہ عبادت گزار کھڑے ہو جاتے ہیں اور جتنی دیر اﷲ تعالیٰ
چاہتا ہے ،نوافل ادا کرتے ہیں ۔ جب آدھی رات گزر جاتی ہے ۔ تو فرشتہ دوبارہ ندا
کرتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کے فرمانبرداروں کواُٹھ جانا چاہیے۔ تو اطاعت گزار اپنے بستروں
سے اُٹھ کر سَحَری تک عبادت میں مشغول رہتے ہیں
جب سَحَر ی کا وقت ہوتا
ہے۔ تو فرشتہ ایک مرتبہ پھر ندا دیتا ہے۔ اب اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرنے
والوں کو اُٹھ جا نا چاہیے ۔چنانچہ ایسے خوش نصیب اُٹھ جاتے ہیں اور اپنے ربِّ
غفّار عزَّوجلْ سے مغفرت طلب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور جب فجر کا وقت شروع ہو
جاتا ہے۔ تَو فرشتہ پکارتا ہے ۔اے غافلو !اب تَو اُٹھو ۔پھر یہ لوگ اپنے بستروں سے
یوں اُٹھتے ہیں، جیسے مردے ہیں جنھیں ان کی قبروں سے نکال کر پھیلا دیا گیا ہے ۔
اے لختِ جگر !
حضرت سیِّدُنا
لقمان علیہ ر حمۃ المنّان کی وصیتوں میں یہ بھی ہے ،کہ آپ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے
اپنے بیٹے کو ارشاد فرمایا۔
اے نورِ نظر !کہیں مرغ تجھ
سے زیادہ عقل مند ثابت نہ ہو، کہ و ہ تَو صبح سویرے اُٹھ کر اذان دے ( اپنے
پروردگار عزَّوجلْ کو یاد کرے )اور تو (غفلت میں ) پڑا سو تارہ جائے ۔
کسی شاعر نے کیا ہی خوب
کہا ہے ۔
لَقَدْ ھَتَفَتْ فِیْ
جُنْحِ لَیْلٍ حَمَامَۃُ
عَلٰی فَنَنٍ وَھْناً وَ اِنِّی لَنَائِمُ
کَذَبْتُ وَبَیْتِ اللہِ
لَوْ کُنْتُ
عَاشِقاً لَمَّا
سَبَقَتْنِیْ بِالْبُکَاءِ الحَمَائِمُ
وَ اَزْعَمُ اِنِّیْ
ھَائِمٌ ذُوْصَابَۃٍ
لِرَبِّیْ فَلَا اَبْکِیْ وَ تَبْکِی الْبَھَائِ
(ترجمہ)رات کو تَوفاختہ شاخ پر بیٹھی آوازیں لگار ہی ہے اور میں خوابِ غفلت کا
شکار ہوں ۔ اﷲ تعالیٰ کی قسم !میں اپنے دعوٰی عشق میں جھوٹا ہوں ۔اگر میں اﷲ
تعالیٰ کا سچا عاشق ہوتا، تو فاختہ رونے میں مجھ سے سبقت نہ لے جاتی۔ میرا گمانِ
فاسد تھا کہ میں اﷲ تعالیٰ سے خوب محبت کرنے والا ہوں۔ ہائے افسوس! کہ جانور بھی
روتے ہیں اور میں محبتِ الہٰی عزَّوجلْ کا مُدَّعی ودعویدار ہوکر بھی کبھی رونہ
سکا ۔
اطاعت و عبادت کی حقیقت
اے پیارے
بیٹے !
علم کا
بنیادی مقصد یہ ہے کہ !'' تُو جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کیا ہے؟ ''
( سُن لو کہ!)اﷲ تعالیٰ کے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم کے اَوامِرونَواہی(
یعنی نیکی کرنے اوربرائی سے روکنے کے احکامات) کی اتّباع کرنے کا نام اطاعت و
عبادت ہے۔ خواہ ان کا تعلق گفتار سے ہو یا کردار سے یعنی جوکچھ کرے یا نہ کرے ،
بولے یا نہ بولے یہ سب کچھ شریعت کے مطابق ہونا چاہیے ۔(اس طرح کہ تیرا ہر عمل
سنّتِ مُصطفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم کا آئینہ دار ہو ۔ اگر تُو
کوئی کام کرے اور وہ تجھے بظاہر عبادت معلوم ہو ،لیکن اگر وہ کام سرکا ر صلَّی اللہ
تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم کے قول وفعل کے مطابق نہیں ،تو یہ کام عبادت میں شمار
نہ ہو گابلکہ تُو گناہ گار ہو گا ،خواہ وہ نماز روز ہ ہی کیوں نہ ہو) مثلاً تُو
عید کے دن یا اَیّام تشریق کو روزے رکھے گاتو گناہ گار ہو گا۔یا غصب شدہ کپڑوں
میں نمازپڑھے گا،اگرچہ یہ عبادات سے تعلق رکھتے ہیں ،مگر پھر بھی تجھے گناہ ملے گا
اے لختِ جگر !
تیرا ہر
عمل اور گفتگو شریعت کے مطابق ہو ۔کیونکہ ہر وہ علم و عمل جو نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ و آلہٖ و سلَّم کی شریعت کے مطابق نہیں ،وہ گمراہی اور حق سے دوری ہے ۔ تجھے
نام نہاد صوفیوں ( بے عمل پیروں ) کی فریب کاری اور شعبدہ بازی و عیّاری سے دھوکہ
نہیں کھانا چاہیے کیونکہ سُلُوک کی منزلیں تونفس کی لذتوں اور خواہشات کو مجاہدے
کی تلوار سے کاٹنے سے طے ہوتی ہیں نہ کہ (ان نام نہاد صوفیوں کی) کشف و کرامات اور
غیر مفید حرکات و سکنات سے ( کیونکہ اﷲ عزَّوجلْ کا دوست بننے کے لیے تجھے پیرِ
کامل کی تربیت کے مطابق مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ جبکہ کسی بے عمل صوفی کی شعبدہ بازیوں
سے متاثر ہو کر اسے اپنی کامیابی اور منزل تک رسائی کے لیے کافی قرار دینا سوائے
بے وقوفی کے کچھ نہیں) اوراس بات کو بھی بخوبی سمجھ لے !زبان کا بے باک ہونا، اور
دل کا غفلت وشہوت سے بھرا ہونااور دنیاوی خیالات ہی میں ڈوبا رہنا شقاوت و بد بختی
کی علامت ہے ۔ جب تک نفس کی خواہشات کو کامل مجاہدہ و ریاضت سے ختم نہیں کریگا ،اس
وقت تک تیرے دل میں معرفت کی روشنی پیدا نہیں ہوگی ۔
اے پیارے بیٹے !
تُو نے
بعض ایسے مسائل مجھ سے دریافت کیے ہیں، جن کا جواب تحریری اور زبانی طور پر پوری
طرح بیان نہیں ہو سکتا ۔اگر تُو اس حالت تک پہنچ گیا ،تَو خود بخود تجھے تیرا جواب
مل جائے گا ۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تَو ان کا جاننا محال ہے ۔کیونکہ ان کا تعلق ذوق
سے ہے ۔اور ہر وہ چیز جس کا تعلق ذوق سے ہو، اسے زبانی بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جیسے
میٹھی چیز کی مٹھاس اور کڑوی چیز کی کڑواہٹ کو صرف چکھ کر ہی جانا جا سکتا ہے ۔
اے لختِ جگر !
تیرے
بعض مسائل تَو اِسی قسم کے ہیں ۔( کہ جن کا تحریری جواب دینا ضروری نہیں) لیکن بعض
پوچھے گئے مسائل ایسے بھی ہیں ،جن کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ اور ہم نے ان
مسائل کو ( اپنی کتاب )
اِحیا ء ُالْعُلوم وغیرہ میں تفصیل کیساتھ ذکر کیا ہے۔ جبکہ یہاں ہم ان میں سے کچھ
کا ذکر کرتے ہیں ۔اور بعض کی جانب اشارہ کرتے ہیں ۔
Continued...
No comments:
Post a Comment