Friday, June 21, 2013

(ایُّھاالوَلَد) بیٹے کو نصیحت (حصہ ۱)


(ایُّھاالوَلَد) بیٹے کو نصیحت
صفحہ ۸ – ۱۵

پیش لفظ


علم دین کا حصول بے شک بہت بڑی سعادت اورافضل عبادت ہے قرآن مجید فرقان حمید نے اہل علم کی فضیلت میں ارشاد فرمایا :

یَرْفَعِ اللہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ؕ  ۔

ترجمہ کنزالایمان : اللہ (عزوجل) تمہارے ایما ن والوں کے اوران کے جن کو علم دیا گیا ہے درجے بلند فرمائے گا ۔
    (پ ۲۸،مجادلہ :۱۱)
حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے : عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمھارے ادنیٰ پر ۔

(سنن الترمذی ، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ ج ۴ ص ۳۱۴ رقم الحدیث ۲۶۹۴ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

ایک اورمقام پر ارشادفرمایا ـ: ایک فَقِیہْہ (عالم) ہزار عابد سے زیادہ شیطان پر سخت ہے۔

(سنن الترمذی ، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ ج ۴ ص۳۱۲ رقم الحدیث ۲۶۹۰ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

   لیکن علم وہی فائدہ مند ہے جس سے نفع اٹھایا جاسکے اس لیے کہ نبی کریم رؤ ف ورحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بے فائدہ علم سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے :  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لَّایَنْفَعُ۔

(الصحیح لمسلم کتاب الذکر والدعاء ، باب التعوذ من شر ،ص ۱۴۵۷ رقم الحدیث۲۷۲۲ مطبوعہ دارابن حزم بیروت)

یعنی اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتاہوں ایسے علم سے جو فائدہ نہ پہنچائے ۔

    لہذا وہی علم حاصل کیا جائے جو دنیا وآخرت میں نافع ہو اورجس علم سے کوئی فائدہ نہ پہنچے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے ۔اما م غزالی علیہ رحمۃ الوالی سے ان کے ایک شاگر د نے اس بارے میں مکتوب کے ذریعے استفسار کیا اورساتھ میں کچھ نصیحتوں کابھی طالب ہوا ۔چنانچہ امام غزالی علیہ رحمۃ الوالی نے جواباً رسالہ نما مکتوب تحریر فرمایا جو '' ا یھا الولد ''کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس مکتوب میں امام غزالی علیہ رحمۃ الوالی نے ایک شفیق باپ کی طرح اپنے روحانی بیٹے کو نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں ۔ آپ علیہ الرحمۃ کا یہ مختصرمکتوب گویا تصوف کا مختصر وجامع نصاب ہے ۔ کامل توجہ کے ساتھ اس کا پڑھنا ، بلکہ بار بار پڑھنا دل میں ان شاء اللہ عزوجل مدنی انقلاب برپا کردینے کا سبب ہوگا۔شہنشاہ تصوف امام غزالی علیہ رحمۃ الوالی کا لکھا ہوا ایک ایک جملہ تاثیر کا تیر بن کر دل میں اترتا ہوا محسو س ہوگا۔
    کامیابی ونجات حاصل کرنے کے لیے امام غزالی علیہ رحمۃ الوالی نے تزکیہ نفس اوراصلاح اعمال پر کافی زور دیا ہے اورمرشد کامل کی ضرورت کو اس کے لیے لازمی قرار دیا ہے جبکہ صرف حصول علم ہی کو سب کچھ سمجھ لینے والوں کو سخت تنبیہ فرمائی ہے مثلا ً اس ملفوظ پر غور فرمائیں تو دل کی کیفیات بدلتی نظر آئیں گی۔
    کہ''جو علم آج تجھے گناہوں سے دور نہیں کر سکا اوراللہ تعالیٰ کی اطاعت وعبادت کا شوق پیدا نہ کرسکا تو یاد رکھ یہ کل قیامت میں تجھے جہنم کی آگ سے بھی نہ بچا سکے گا۔''



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْانْبِیَاءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فاَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اے محبت کرنے والے! بہت ہی پیارے بیٹے !

    اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی اطاعت میں لمبی عمر عطا فرمائے اور اپنے پیاروں کے رستے پر چلنا نصیب فرمائے ۔ یہ بات ذہن نشین کر لو !

    نصیحت کے مَہکتے پھول تو سرکارِمدینہ ، راحتِ قلب و سینہ ، فیض گنجینہ ، باعثِ نُزولِ سکینہ ، صاحبِ مُعطّر و مُعَنبر پسینہ ، صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم کی احادیث وسنّت سے حاصل ہوتے ہیں۔اگر ان میں سے تجھے فیض مل چکا ہے ، تو پھر تجھے میری کسی نصیحت کی ضرورت نہیں اور اگر بارگاہِ مُصطفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم سے تجھے کوئی نصیحت نہیں پہنچی ، تَو مجھے یہ بتاؤ تم نے گزر ے اَیّام میں کیا حاصل کیا ؟


    اے پیارے بیٹے !

    نبی کریم ،رَءُوفٌ رّحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم نے اپنی امّت کو جو نصیحتیں ارشاد فرمائیں،اُن میں سے ایک مہَکتامدنی پھول یہ ہے ۔

عَلَامَۃُ اِعْرَاضِ اللہِ تَعَالیٰ عَنِ الْعَبْدِ اِشْتِغَالُہُ بِمَا لَا یَعْنِیْہِ، وَ اِنَّ امْرأً ذَھَبَتْ ساعۃٌ مِنْ عُمْرِہِ فِیْ غَیْرِ مَا خُلِقَ لَہُ لَجَدِیْرٌ أَن تَطُوْلَ عَلَیْہِ حَسْرَتُہُ، وَ مَنْ جَاوَزَاالْاَرْبَعِیْنِ وَ لَمْ یَغْلِبْ عَلَیْہِ خَیْرُہُ شَرَّہُ فَلْیَتَّجَھَّزْ اِلَی النَّارِ۔

یعنی بندے کا غیر مفیدکاموں میں مشغول ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے اپنی نظرِ عنایت پھیر لی ہے۔ اور جس مقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے ،اگر اس کی زندگی کا ایک لمحہ بھی اس کے علاوہ گزر گیا تو وہ اس بات کا حقدار ہے کہ اس پر عرصہ حسرت دراز کر دیا جائے۔ اور جس کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہو جائے اور اِس کے باوجود اُس کی برائیوں پر اُس کی اچھائیاں غالب نہ ہوں، تو اُسے جہنّم کی آگ میں جانے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

(الفردوس بمأثور الخطاب : باب المیم ج ۳ ص ۴۹۸ رقم الحدیث ۵۵۴۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

سمجھدار اور عقلمند کے لیے اتنی ہی نصیحت کافی ہے۔

نصیحت کس پر اثر نہیں کرتی؟   
اے لختِ جگر!

    نصیحت کرنا تو بہت آسان ہے، مگر اس کو قبول کر کے اس پر عمل کرنا بہت ہی مشکل ہے۔کیونکہ جن لوگوں کے دلوں میں دنیاوی لذّات اور نفسانی خواہشات کا غَلَبہ ہو ،ان کو نصیحت و بھلائی کی باتیں کڑوی لگتی ہیں۔اور خُصوصاً وہ جو رسمی علم کا طالب ہو ، اپنی واہ واہ چاہنے میں مشغول اور دنیاوی شُہرت کے حُصول میں مگن ہو، اس مرض کا زیادہ شکار نظر آتا ہے۔کیونکہ وہ اس گمانِ فاسد میں مُبتَلا ہے کہ صرف حُصول علم ہی اس کی کامیابی اور آخرت میں نجات و چھٹکارے کے لئے کافی ہے، اس طرح وہ اپنے علم پر عمل کو لازم قرار نہیں دیتا ، حالانکہ یہ تو فلسفیوں کا عقیدہ ہے۔یہ شخص اتنا بھی نہیں جانتا کہ علم حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل نہ کرنا محشر کے میدان میں شدید پکڑ کا باعث ہو گا۔ جیسا کہ اللہ کے محبوب،دانائے غُیُوب، مُنزَّ ہٌ عن کُلِّ عُیُوب، عزَّوجلْ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے۔

اَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَالِمٌ لَا یَنْفَعُہٗ اللہُ بِعِلْمِہٖ

قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اُس عالم کو ہوگا جس کے علم سے اللہ تعالیٰ نے اُسے (عمل نہ کرنے کی صورت میں )کوئی فائدہ نہ دیا ہو۔

        (الکفایہ فی علم الروایۃ ص ۷ المکتبۃ العلمیۃ المدینۃ المنوّرۃ)

    حضرت سیِّدُناامام جنید بغدادی علیہ رحمۃ الھادی کو بعدِ وصال کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا ، اے ابو القاسِم!(بعدِ وفات آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟)کچھ ارشاد فرمائیے۔ فرمایا ''علمی اَبحاث اور علمی نِکات کی باریکیاں کام نہ آئیں مگر رات کی تنہائی میں ادا کی جانے والی نماز (تہجّد) نے خوب فائدہ پہنچایا ''۔

علم پر عمل نہ کرنے کی مثال   
    ا ے نُورِ نظر!

    نیک اعمال سے محروم اور باطنی کمالات سے خالی نہ رہنا۔(ظاہر و باطن کو اَخلاق حَسَنہ سے مُزیّن و آراستہ کرنا) اور اس بات کو یقینی جان کہ (عمل کے بغیر )صرف علم ہی بروزِ حشر تیرے کام نہ آئے گا۔جیسا کہ ایک شخص جنگل میں ہو اور اس کے پاس دس تیز اور عمدہ تلواریں اور دیگر ہتھیارہوں ، ساتھ ہی ساتھ وہ بہادر بھی ہو اور اسے جنگ کرنے کا طریقہ بھی آتا ہو ، ایسے میں اچانک ایک مُہیب اور خوفناک شیر اس پر حملہ کر دے! تَو تیرا کیا خیال ہے؟ کہ استعمال کے بغیر صرف ان ہتھیار کی موجودگی اُسے اِس مصیبت سے بچا سکتی ہے؟یقینا تُو اچھی طرح جانتا ہے کہ ان ہتھیاروں کو استعمال میں لائے بغیر اس حملے سے نہیں بچا جا سکتا۔لہذا اس بات کو اپنے گرہ سے باندھ لو! کہ اگر کسی شخص کوہزاروں علمی مسائل پر عُبور حاصل ہو اور وہ اس کی تعلیم بھی دیتا ہو، لیکن اس کا اپنے علم پر عمل نہ ہو، تو اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے، کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو ،اسے گرمی اور صفرہ کی شکایت ہو۔ اور یہ بات اس کے علم میں ہو کہ اس کا علاج سکنجبین اور کشکاب کا استعمال کرنے میں ہے۔ تو انھیں استعمال بغیر ( صرف ان کی موجودگی سے) اس کا مرض کس طرح ختم ہو سکتا ہے؟

گَرْ مَیْ دُو ہَزَ ا رْ بَا رْ پِیْمَا ئی
تَامیْ نَخُورِی نَبَاشَدْت شِیدَائی

اگر تیرے پاس کافی مقدار میں شراب موجود ہو، جب تک تو اس میں سے کچھ پی نہ لے، تجھے نشہ نہ ہو گا۔

صرف کتابیں جمع کرنے کا فائدہ نہیں
    پیارے بیٹے!

    اگر تو سو سال تک حُصول علم میں مصروف رہے اور ہزاروں کتابیں جمع کرلے تو غور سے سُن! جب تک تیرا اس پر عمل نہیں ہو گا ،اس وقت تک تُو اللہ تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ کا مستحق نہیں بن سکتا۔

پروردگارِ عالم عزَّوجلْ ارشاد فرماتا ہے۔

وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّامَا سَعٰی

ترجَمہ کنزُ الایمان: اور یہ کہ آدمی نہ پائے گا مگر اپنی کوشش۔     ( النّجَم / ۳۹)

ربّ ِکریم عزَّوجلْ کا ارشادِ پاک ہے۔

فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا

ترجَمہ کنز ُالایمان: تو جسے اپنے ربّ سے ملنے کی امید ہو اسے چاہے کہ نیک کام کرے۔ ( الکھف/ ۱۱۰)

اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔

جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکْسِبُوۡنَ ﴿۸۲

ترجَمہ کنزُ الایمان: بدلہ اس کا جو کماتے تھے۔         ( توبہ/ ۸۲)

ربّ العالمین عزَّوجلْ کا ارشاد ِپاک ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ﴿۱۰۷﴾ۙخٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا لَا یَبْغُوۡنَ عَنْہَا حِوَلًا ﴿۱۰۸

ترجَمہ کنز ُالایمان:بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے فردوس کے باغ ان کی مہمانی ہے۔ وہ ہمیشہ ان ہی میں رہیں گے۔ ان سے جگہ بدلنا نہ چا ہیں گے۔ ( الکھف/ ۱۰۷،۱۰۸)

اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

اِلَّامَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا

ترجَمہ کنز ُالایمان: مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے۔ ( الفرقان/ ۷۰)

    اور ان احادیث مبارکہ کے بارے میں تیرا کیا کہنا ہے؟ ( کیا ان کو پڑھ کر بھی تجھے عمل کی ترغیب نہیں ملے گی؟)


No comments: