عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ عَنِ النَّبیِّ قَالَ مَا
یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَّصَبٍ وَلَا وَصَبٍ
وَلَا ھَمٍّ وَلَا حُزْنٍ وَلآ أَذَی وَلَا غَمٍّ حَتّٰی الشَّوْکَۃِ
یُشَاکُھَا اِلَّا کَفَّرَ اللہُ بِھَا مِنْ خَطَایَاہُ اللہ
حضرت ابوسعید خدری نبی(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)سے روایت کرتے
ہیں کہ فرمایا نہیں پہنچتی ہے
مسلمان(کو)کوئی تکلیف اور نہ کوئی بیماری اور نہ کوئی فکر اور نہ کوئی ملال اور نہ کوئی اذیت اور نہ کوئی
غم
یہاں تک کہ کاٹنا جو چبھتا ہے اسے مگر مٹاتا ہے ان(مصیبتوں)کے سبب سے
اس(مسلمان)کی خطائیں
بامحاورہ ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،
کہ اللہ کے رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو کوئی
تکلیف، فکر، بیماری ،ملال ، اذیت اور کوئی غم نہیں پہنچتا یہاں تک کہ کانٹا جو اسے
چبھے مگر اللہ تعالیٰ ان کے سبب ان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب المرضیٰ،باب ماجاء فی کفارۃالمرض،الحدیث۵۶۴۲،ج ۴،ص۳)
وضاحت:
اس حدیث میں مسلمانوں
کیلئے عظیم بشارت ہے کہ صبر کرنے والے کے لئے تھوڑی سی تکلیف بھی اس کے گناہوں کا
کفّارہ ہے ۔تکالیف اور بیماری وغیرہ کی فضیلت پر چند مزید احادیث ِ مبارکہ ملاحظہ
ہوں:
۱، حضرتِ سیدتنا عا شہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرورِ
کونین، ہم غریبوں کے دل کے چین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ'' جب
مومن بیمارہوتا ہے تو اللہ عزوجل اسے گناہوں سے ایسا پاک کردیتا ہے جیسے بھٹی لوہے
کے زنگ کو صاف کردیتی ہے ۔''
(التر غیب و التر ھیب ،کتاب الجنائز ، باب التر
غیب فی الصبر ،الحدیث ۴۲ ،ج۴ ،ص ۱۴۶)
۲، حضرتِ سیدنا اَسَدبن
کُرْزرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
نے فرمایاکہ'' مریض کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ۔''
(التر غیب والترھیب ،کتاب
الجنائز ،باب التر غیب فی الصبر ،الحدیث ۵۶، ج
۴ ، ص ۱۴۸)
۳، حضرتِ سیدنا ابن مسعود
رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم ،نورِ مجسم ،شاہِ بنی آدم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا،'' مومن پر تعجب ہے کہ وہ بیماری سے ڈرتا
ہے، اگر وہ جان لیتا کہ بیماری میں اُس کے لئے کیا ہے؟ تو ساری زندگی بیمار رہنا
پسند کرتا۔'' پھر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی
طرف اٹھا یا اور مسکرانے لگے۔ عرض کیا گیا ،''یا رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم! آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر تبسم کیوں فرمایا ؟''ارشاد
فرمایا،'' میں دو فرشتوں پر حیران ہوں کہ وہ دونوں ایک بندے کو ایک مسجد میں تلاش
کر رہے تھے جس میں وہ نماز پڑھا کرتا تھا، جب انہوں نے اسے نہ پایا تو لوٹ گئے اور
عرض کیا ،''یا رب عزوجل! ہم تیرے فلاں بندے کے دن اور رات میں کئے ہوئے اعمال
لکھتے تھے پھر ہم نے دیکھا کہ تو نے اُسے آزمائش میں مبتلاء فرما دیا۔ ''تو اللہ
عزوجل فرماتا ہے کہ ''میرا بندہ دن اور رات میں جو عمل کیا کرتا تھا اس کے لئے وہ
عمل لکھو اور اسکے اجر میں کمی نہ کرو، جب تک وہ میری طرف سے آزمائش میں ہے اس کا
ثواب میرے ذمہ کرم پرہے اور جو اعمال وہ کیا کرتا تھا اس کے لئے ان کا بھی ثواب ہے
۔''
(المعجم الاوسط،الحدیث ۲۳۱۷، ج۲، ص ۱۱)
دعا:
یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ
وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہمیں مصائب وآلام پر صبر کرنے کی توفیق
عطا فرما ۔ یا اللہ!عَزَّوَجَلّ ہماری بلا حساب مغفِرت فرما ۔یا اللہ عَزَّوَجَلَّ
ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔یااللہ ! عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )
کی بخشش فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
سبحان اللہ
الحمد اللہ اللہ اکبر
اشہد ان لا الہ الا اللّٰہ و اشہد ان محمد رسول اللہ
No comments:
Post a Comment