Friday, December 6, 2013
Friday, July 12, 2013
کفن
عَنِ ابْن
عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ اِلْبِسُوْا مِنْ ثِیَابکُمْ الْبَیَاضَ
فَاِنَّھَا مِنْ خَیْر ثِیَابِکُمْ وَکَفِّنُوْافِیْھَا
مَوْتَاکُمْ
حضرت ابن
عباس سے(روایت ہے) کہا(انہوں نے) فرمایا اللہ کے رسول(نے) پہنو تم سب اپنے کپڑوں
میں سے سفید بیشک یہ (سفید کپڑے) تمہارے بہتر کپڑے ہیں اور کفناؤ تم ان(کپڑوں)میں
اپنے مُردوں (کو)
بامحاورہ
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسو ل عزوجل
وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ سفید کپڑے پہنا کر و اسلئے کہ
وہ عمدہ قسم کے کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں اپنے مردوں کو کفنایا کرو۔
(جامع
الترمذی،کتاب الجنائز،باب مایستحب من الاکفان،الحدیث۹۹۶،ج۲،ص۳۰۱)
وضاحت:
یہ حکم استحبابی ہے کہ زندوں اور مُردوں کے لیے سفید کپڑا مستحب ہے
ورنہ عورت میت کے لیے ریشمی، سوتی، سرخ پیلا ہر طرح کا کفن جائز ہے اگرچہ بہتر
سفید اور سوتی ہے۔
(مراٰۃ
المناجیح،ج ۲،ص۴۶۳)
جو کپڑا زندگی میں پہن سکتا ہے اس کا کفن دیا جاسکتا ہے اور جو زندگی میں ناجائز
اس کا کفن بھی ناجائز ۔میت کو کفن دینا فرضِ کفا یہ ہے۔ کفن کے تین درجے ہیں۔
( 1) ضرورت (2) کفایت (3)سنت
مرد کیلئے
کفنِ سنت: تین کپڑے ہیں۔
(1)لفافہ (2)اِزار (3)قمیص
مرد کیلئے
کفنِ کفایت: دو کپڑے ہیں۔
(1)لفافہ (2)اِزار
عور ت
کیلئے کفنِ سنت: پانچ کپڑے ہیں۔
(1)لفافہ (2)اِزار (3)قمیص (4)اوڑھنی (5)سینہ بند
عورت کیلئے
کفنِ کفایت: تین کپڑے ہیں۔
(1)لفافہ (2)اِزار (3)اوڑھنی یا
(1)لفافہ (2)قمیص (3)اوڑھنی
مرد و عورت
کیلئے کفنِ ضرورت: کفنِ ضرورت دونوں کیلئے یہ کہ جو میسر آئے
اور کم از کم اتنا تو ہو کہ سارا بدن ڈھک جائے۔
(1)لفافہ(یعنی
چادر): میت کے قد سے اتنی بڑی ہو کہ دونوں طرف باندھ سکیں۔
(2)اِزار(یعنی
تہ بند): چوٹی سے قدم تک یعنی لفافہ سے اتنا چھوٹا جو بندش کیلئے زیادہ تھا۔
(3)قمیص(یعنی
کفنی):گردن سے گھٹنوں کے نیچے تک اور یہ آگے اور پیچھے دونوں طرف برابر ہو اس میں
چاک اور آستینیں نہ ہوں۔ مرد کی کفنی کندھوں پر چیریں اور عورت کیلئے سینے کی طرف۔
(4)اوڑھنی:
تین ہاتھ کی ہونی چاہیے یعنی ڈیڑھ گز۔
(5)سینہ
بند: پستان سے ناف تک اور بہتر یہ ہے کہ ران تک ہو۔
(بہار شریعت
حصہ۴،ص۱۶۶،۱۶۸)
دعا:
یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہمیں قبر کی
تنگی اور وحشت سے بچا ۔ یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔ یااللہ !
عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی بخشش
فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Thursday, June 27, 2013
شہادتیں
عَنْ جَابر بْن عَتِیْکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ اَلْمَطْعُوْنُ
شَھیْدُ،وَالْغَریْقُ شَھِیْدُ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْب شَھیْد،ُ
وَالْمَبْطُوْنُ شَھیْدُ، وَصَاحِبُ الْحَریْق شَھِیْدُ، وَالَّذِیْ یَمُوْتُ
تَحْتَ الْھَدَم شَھیْدُ، اَلْمَرْأَۃُ تَمُوْتُ بجُمْعِ شَھیْدُ،
حضرت جابربن عتیک سے(روایت ہے) کہا(انہوں نے کہ)فرمایا اللہ کے
رسول(نے) شہادتیں سات(ہیں) علاوہ قتل(کے)اللہ کی راہ میں طاعون زدہ(ہوکر
مرے)شہید(ہے)اورڈوب کر مرے
شہید(ہے)اور جو ذات الجنب میں( مرے)شہید(ہے)اور پیٹ کی بیماری میں
(مرے)شہید(ہے)
اور آگ میں جل کر مرےشہید(ہے)اور وہ جومرتا ہے(مرے)عمارت کے نیچے دب
کرشہید(ہے)
(جو)عورت فوت ہو ولادت میں شہید(ہے)
بامحاورہ ترجمہ: حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اللہ
عزوجل کی راہ میں قتل کے علاوہ سات شہادتیں اور ہیں۔جو طاعون میں مرے شہید ہے،جو
ڈوب کر مرے شہید ہے،جو ذات الجنب میں مرے شہیدہے،جو پیٹ کی بیماری میں مرے شہید
ہے،جو آگ میں جل جائے شہید ہے،جو عمارت کے نیچے دب کر مرے شہید ہے اور جو عورت
ولادت میں مرے شہیدہے۔
(مشکوۃ المصابیح، کتاب الجنائز،باب عیادۃ
المریض،الحدیث ۱۵۶۱،ج۱،ص۲۹۹)
وضاحت:
یہاں شہادت سے شہادتِ
حکمی مراد ہے کہ اس میں شہادت کا ثواب تو ملتا ہے مگر شہید کے شرعی احکام جاری
نہیں ہوتے ۔
ذات الجنب اس بیماری کو
کہتے ہیں جس میں پسلیوں پر پھنسیاں نمودار ہوتی ہیں ،پسلیوں میں درد اور بخار ہوتا
ہے اکثر کھانسی بھی اٹھتی ہے ، ولادت میں مرجانے والی عورت سے مراد وہ عورت ہے
جوحاملہ فوت ہوجائے یا بچے کی پیدائش کے وقت یا ولادت کے بعد چالیس دن کے اندر فوت
ہو ،بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے مراد کنواری عورت ہے جو بغیر شادی کے فوت ہوجائے
۔ (مراٰۃ المناجیح، ج۲، ص ۴۲۰ )
صدر الشریعہ بدرالطریقہ
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی فرماتے ہیں کہ یہ(یعنی شہید حکمی)
سات سے بھی زائد ہیں،جن میں سے بعض یہ ہیں:
( 1)بخار میں مرا۔(2)مال یا(3)جان یا (4)اہل یا(5) کسی حق کے بچانے
میں قتل کیا گیا۔(6)کسی درندہ نے پھاڑ کھایا۔(7)کسی موذی جانور کے کاٹنے سے
مرا۔(8)علمِ دین کی طلب میں مرا۔(9)جو با طہارت سویا اور مرگیا۔(10)جو سچے دل سے
یہ سوال کرے کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں۔ (11)جو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم پر سو بار درود شریف پڑھے۔ (بہار شریعت،شہید کا بیان، حصہ۴ ص۲۰۸)
دعا:
یاربِّ مصطَفٰے
عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہمیں گنبدِ خضریٰ کے سائے
میں محبوب کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جلوؤں میں شہادت کی موت
نصیب فرما ۔ یا اللہ!عَزَّوَجَلّ ہماری بے حِساب مغفِرت فرما۔ یا اللہ
عَزَّوَجَلَّ ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔یااللہ ! عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )
کی بخشش فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
پہلی صدی میں جمعہ کا جزبہ
حجۃ الاسلام حضرتِ سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ
الوالی فرماتے ہیں، پہلی صدی میں سحری کے وقت فجر کے بعد راستوں کو لوگوں سے بھرا
ہوا دیکھا جاتا تھا، وہ چراغ لیے ہوئے (نمازِ جمعہ کے لیے) جامِع مسجد کی طرف جاتے
گویا عید کا دن ہو، حتٰی کہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ پس کہا گیا کہ اسلام
میں جو پہلی بدعت ظاہر ہوئی وہ جامِع مسجد کی طرف جلدی جاگے کو چھوڑنا ہے۔ افسوس!
مسلمانوں کو کسی طرح یہودیوں سے حیاء نہیں آتی کہ وہ لوگ اپنی عبادت گاہوں کی طرف
ہفتے اور اتوار کے دن صبح سویرے جاتے ہیں نیز طلبگارانِ دنیا خرید و فروخت اور
حصولِ نفع دنیوع کیلئے سویرے سویرے بازاروں کی طرف چل پڑتے ہیں تو آخرت طلب کرنے
والے ان سے مقابلہ کیوں نہیں کرتے!"
(احیاء العلوم، ج۱، ص۲۴۶،
دارصادر بیروت)
جمعہ کی برکتیں
حضرت حمید بن عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنے والد
سے روایت فرماتے ہیں کہ فرمایا، "جو شخص حمعہ کے دن اپنے ناخن کاٹتا ہے اللہ
تعالیٰ اس سے بیماری نکال کر شفاء داخل کر دیتا ہے
(مصنف ابن ابی شیبہ، ج ۲،
س ۶۵ دالفکر بیروت)
سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ، قرارِ قلب و سینہ، فیضِ
گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے، "جب جمعہ کا دن آتا ہے
تو مسجد کے ہر دروازہ پر فرشتے آنے والے کو لکھتے ہیں، جو پہلے آئے اس کو پہلے
لکھتے ہیں، جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک اونٹ
صدقہ کرتا ہے، اور اس کے بعد آنے والا اُس شخص کی طرح ہے جو گائے صدقہ کرتا ہے، اس
کے بعد والا اُس شخص کی مِثل ہے جو مینڈھا صدقہ کرے، پھر اس کی مِثل ہے جو مرغی
صدقہ کرے، پھر اس کی مثل ہے جو انڈا صدقہ کرے اور جب امام (خطبہ کے لیے) بیٹھ جاتا
ہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اور آ کر خطبہ سنتے ہیں
(صحیح بخاری ج۱ ص۱۲۷)
Wednesday, June 26, 2013
عدت کی مدت
عَن الْمِسْوَربْن مَخْرمَۃَ أَنَّ سُبَیْعَۃَ الْاَسْلَمِیَّۃَ
نُفِسَتْ بَعْدَوَفَاۃِزَوْجِھَابِلَیَال ٍ فَجَاءَ تِ النَّبِیَّ صلی اللہ تعالی
علیہ وآلہ وسلم فَاسْتَاذَنَتْہٗ أَنْ
تَنْکِحَ فَأَذِنَ لَھَا فَنَکَحَتْ
حضرت مسور بن مخرمہ سے(روایت ہے) کہ سبیعہ اسلمیہ(کو) نفاس آیا(یعنی
بچہ جنا) اپنے شوہر(کے) انتقال کے کچھ عرصہ بعد تو آئیں وہ نبی صلی اللہ تعالی
علیہ وآلہ وسلم (کے پاس ) اور اجازت چاہی انہوں
نے ،سرکار سے کہ نکاح کریں وہ پس اجازت عطا کی سرکار صلی اللہ تعالی علیہ
وآلہ وسلم نے ان کوتو نکاح کیا انہوں نے
بامحاورہ ترجمہ: حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،
کہ سبیعہ اسلمیہ نے شوہر کے انتقال کے کچھ عرصے بعد بچہ جناتو اللہ کے رسول صلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور نکاح کی اجازت طلب کی حضور
صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی تو انہوں نے نکاح کرلیا۔
(صحیح البخاری، کتاب الطلاق، باب۳۹، الحدیث۵۳۲۰،ج۳،ص۵۰۳)
وضاحت:
یعنی وہ خاتون حاملہ تھیں
اپنے خاوند کی وفات کے چند دن بعد بچہ پیدا ہو گیا تھا نفاس آنے سے یہی مراد ہے۔اس
پر امت کا اجماع ہے کہ حاملہ کی عدت حمل جَن دینا ہے خواہ مطلقہ ہو یا وفات والی ،
اگرچہ طلاق یا وفات کے ایک منٹ بعد ہی بچہ پیدا ہو جائے۔ اس مسئلہ کا ماخذ یہ حدیث ہے۔
(مراٰۃ المناجیح، ج ۵،ص ۱۵۰)
شوہر کے طلاق دینے یا اس
کے وفات پا جانے کے بعد عورت کا نکاح ممنوع ہونا اور ایک زمانہ معینہ تک انتظار
کرنا اصطلاحِ شریعت میں عدت کہلاتا ہے۔
بیوہ حاملہ: بیوہ حاملہ کی عدت وضعِ حمل ہے۔
بیوہ غیر حاملہ: بیوہ اگر حاملہ نہ ہو تو اس کی عدت چار مہینے دس دن
ہے۔
مطلقہ حاملہ: طلاق والی عورت اگر حاملہ ہو تو اسکی عدت وضع حمل ہے۔
مطلقہ مدخولہ غیر حاملہ: طلاق والی مدخولہ عورت اگر آئسہ یعنی پچپن
سالہ(جو سن ایاس کو پہنچ چکی یعنی اب حیض کی عمر نہ رہی)یا نابالغہ (جس کو ابھی
حیض آیا ہی نہیں )ہو تو اس کی عدت تین ماہ ہے۔
اور طلاق والی مدخولہ
عورت اگر حاملہ، نابالغہ یا آئسہ نہ ہو یعنی حیض والی ہو تو اس کی عدت تین حیض ہے،
خواہ یہ تین حیض تین ماہ میں یا تین سال میں یا اس سے زیادہ میں آئیں۔ (انوار
الحدیث،ص۳۲۹)
مطلقہ غیر مدخولہ: طلاق کی عدت غیر مدخولہ پر اصلًا نہیں اگرچہ کبیرہ
ہو۔
(فتاویٰ رضویہ،ج۱۳،ص۲۹۳)
دعا: یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہماری
بے حِساب مغفِرت فرما۔ یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔یااللہ !
عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی بخشش فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
دنیا کی بہترین متاع
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمرٍو اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ قَالَ اِنَّ
الدُّنْیَا کُلَّھَا مَتَاعُ ، وَّ خَیْرُمَتَاعِ الدُّنْیَا الْمَرْءَ ۃُ
الصَّالِحَۃُ
حضرت عبد اللہ بن عمرو سے(روایت ہے) بےشک اللہ کے رسول(نے) فرمایا
بےشک ساری دنیا متاع (یعنی قابل استفادہ چیز) ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک
عورت(بیوی)ہے
بامحاورہ ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت
ہے کہ اللہ کے رسول عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ ساری دنیا
ایک متاع ِزندگی ہے اور دنیاکی بہترین متاع نیک عورت ہے۔
(سنن النسائی،کتاب النکاح،باب المرأۃ الصالحہ،ج۶،ص۶۹)
وضاحت:
انسان دنیا کو برَتْ کر
چھوڑ جاتا ہے رب تعالیٰ فرماتا ہے '' قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا
قَلِیْلٌ'' ترجمہ کنزالایمان:تم فرما دو کہ دُنیا کا برتنا تھوڑا ہے ۔ (پ۵،النساء ۷۷)
صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں ،اگر دنیا دین سے مل جائے تو لازوال دولت ہے قطرے کو ہزار خطرے ہیں
دریا سے مل جائے توروانی طغیانی سب کچھ اس میں آجاتی ہے اور خطرات سے باہر ہو جاتا
ہے۔
عورت کو بہترین متاع اس
لئے فرمایا گیا کہ نیک بیوی مرد کو نیک بنا دیتی ہے،وہ اُخروی نعمتوں سے ہے حضرت
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے '' رَبَّنَا اٰ تِنَا فِی
الدُّنْیَا حَسَنَۃً'' کی تفسیر میں فرمایا (یعنی ) خدایا ہم کو دنیا
میں نیک بیوی دے اور آخرت میں اعلیٰ حور عطا فرما اور آگ'' یعنی خراب بیوی'' کے
عذاب سے بچا۔جیسے اچھی بیوی خدا کی رحمت ہے ایسی ہی بری بیوی خدا کا عذاب ہے۔ (مراٰۃ
المناجیح، ج ۵،ص۴)
دعا:
یاربِّ مصطَفٰے!
عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہماری بے حِساب مغفِرت فرما۔ یا
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔یااللہ ! عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ محبوب
(صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بخشش فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
Tuesday, June 25, 2013
اِیصالِ ثواب
عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ قَالَ یَارَسُوْلَ اللہِ! الصَّدَقَۃِ
أَفْضَلُ قَالَ الْمَآء فَحَفَرَ بِئْرًا وَقَالَ ھٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْدٍ
حضرت سعد بن عبادہ سے(روایت ہے) کہا(انہوں نے) یارسول اللہ! بیشک
سعدکی ماں کا انتقال ہوگیا تو کونسا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا(اللہ کے رسول نے)
پانی(افضل ہے) کھدوایا ایک کنواں اور فرمایا(حضرت سعد نے) یہ سعد کی ماں کیلئے
(ہے)
بامحاورہ ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
انہوں نے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ اُمّ سعد(یعنی میری
ماں) کا انتقال ہو گیا ہے ان کیلئے کونسا صدقہ افضل ہے؟ اللہ کے رسول عزوجل وصلی
اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانی(بہترین صدقہ ہے تو حضور صلی اللہ تعالی
علیہ وآلہ وسلم کے کہنے کے مطابق) حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کنواں کھدوایا
اور (اسے اپنی ماں کیطرف منسوب کرتے ہوئے) کہا یہ کنواں سعد کی ماں کیلئے ہے۔(یعنی
اس کا ثوا ب ان کو پہنچے۔)
(سنن ابی داود،کتاب الزکاۃ،باب
فی فضل سقی المائ،الحدیث۱۶۸۱،ج۲،ص۱۸۰)
وضاحت:
حضرت سیدنا سعد رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے اس سوال'' کونسا صدقہ افضل ہے؟''کا مطلب یہ ہے کہ میں کونسا صدقہ دے
کر ان کی روح کو اس کا ثواب بخشوں۔ اس سے معلوم ہواکہ بعدِ وفات میت کو نیک اعمال
خصوصاً مالی صدقہ کا ثواب بخشنا سنّت ہے۔ قرآن کریم سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ نیکو
ں کی برکت سے بروں کی آفتیں بھی ٹل جاتی ہیں،رب تعالیٰ فرماتا ہے وَکاَنَ
اَ بُوْہُمَا صَا لِحاً (ترجمۂ
کنزالایمان :اور ان کا باپ نیک آدمی تھا)۔ (پ۱۶،سورۃ الکہف:۸۲)
نبیِ کریم صلی اللہ تعالی
علیہ واٰلہ وسلم نے جواباً پانی کی خیرات کا حکم دیا ۔کیونکہ پانی سے دینی دنیوی
منافع حاصل ہوتے ہیں۔بعض لوگ سبیلیں لگاتے ہیں عام مسلمان ختم فاتحہ وغیرہ میں
دوسری چیزوں کے ساتھ پانی بھی رکھ دیتے ہیں ان سب کا ماخذ یہ حدیث ہے۔اس حدیث سے
یہ بھی معلوم ہواکہ ایصالِ ثواب کے الفاظ زبان سے ادا کر نا سنّتِ صحابہ ہے کہ
خدایا اس کا ثواب فلاں کو پہنچے۔
(ماخوذ از مراٰۃ المناجیح، ج ۳،ص۱۰۴ ،۱۰۵)
شیخِ طریقت امیر اہلسنّت
بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتہم العالیہ
کے رسالے ''مغموم مُردہ ''سے ایصال ثواب کے مدنی پھول:
( 1)فرض،واجب،سنت،نفل،نماز،روزہ،زکوۃ،حج وغیرہ ہر عبادت (نیک کام)کا
ایصالِ ثواب کرسکتے ہے۔
(2)میت کا تیجا،دسواں،چالیسواں،برسی کرنا اچھا ہے کہ یہ ایصالِ ثواب کے
ذرائع ہیں۔شریعت میں تیجے وغیرہ کے عدَمِ جواز کی دلیل نہ ہونا خود دلیلِ جواز ہے
اور میت کیلئے زندوں کا دعا کرنا خود قرآن پاک سے ثابت ہے جو کہ ایصالِ ثواب کی
اصل ہے۔
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْم
بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَاوَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ
سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ جوان کے
بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! عزوجل ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم
سے پہلے ایمان لائے۔ (پ۲۸،الحشر:۱۰)
(3)تیجے وغیرہ میں کھانے کا
انتظام صرف اسی صورت میں میت کے چھوڑے ہوئے مال سے کر سکتے ہیں جبکہ سارے وُرثاء
بالغ ہوں اور سب کے سب اجازت بھی دیں۔اگر ایک بھی وارث نابالغ ہے تو نہیں
کرسکتے(نابالغ اجازت دے تب بھی نہیں کرسکتے)۔ہاں بالغ اپنے حصے سے کرسکتا ہے۔
(4)میت کے گھر والے اگر تیجے کا کھانا پکائیں تو صرف فُقراء کو
کھلائیں۔
(5)نابالغ بچے کو بھی ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں جو زندہ ہیں ان کو
بھی،بلکہ جو مسلمان ابھی پیدا نہیں ہوئے ان کو بھی پیشگی(ایڈوانس میں)ایصالِ ثواب
کیا جاسکتا ہے۔
(6)مسلمان جنّات کو بھی ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔
(7)گیارہویں شریف،رَجَب شریف(یعنی ۲۲ رجب کو سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کے کونڈے کرنا)وغیرہ
جائز ہیں۔کھیر کونڈے ہی میں کھلانا ضروری نہیں دوسرے برتن میں بھی کھلاسکتے ہیں۔اس
کو گھر سے باہر بھی لے جاسکتے ہیں۔
(8)بزرگوں کے فاتحہ کے کھانے کو تعظیماً نذر ونیاز کہتے ہیں اور یہ
نیاز تبرُّ ک ہے اسے امیر و غریب سب کھا سکتے ہیں۔
(9)داستانِ عجیب،شہزادے کا سر،دس بیبیوں کی کہانی اور جنابِ سیدہ کی
کہانی وغیرہ سب مَن گھڑت قصے ہیں انہیں ہر گز نہ پڑھا کریں۔اسی طرح ایک پمفلٹ بنام
وصیت نامہ لوگ تقسیم کرتے ہیں جس میں شیخ احمد کا خواب درج ہے یہ بھی جعلی ہے اس
کے نیچے مخصوص تعداد میں چھپوا کر بانٹنے کی فضیلت اور نہ تقسیم کرنے کے نقصانات
وغیرہ لکھے ہیں یہ بھی سب غلط ہیں۔
(10)جتنوں کو بھی ایصالِ ثواب کریں اللہ عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ
سب کو پورا ملیگا یہ نہیں کہ ثواب تقسیم ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ملے۔
(11)ایصالِ ثواب کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ
یہ امید ہے کہ اس نے جتنوں کو ایصالِ ثواب کیا ان سب کے مجموعہ کے برابر ملیگا
مثلاً کوئی نیک کام کیا جس پر اس کو دس نیکیاں ملیں اب اس نے دس مُردوں کو ایصالِ
ثواب کیا تو ہر ایک کو دس دس نیکیاں پہنچیں گی جبکہ ایصالِ ثواب کرنے والے کو ایک
سو دس اور اگر ایک ہزار کو ایصالِ ثواب کیا تو اس کو دس ہزار دس۔وَعَلٰی ھٰذَا
الْقِیَاس
(12)ایصالِ ثواب صرف مسلمان
کو کرسکتے ہیں۔ (مغموم مُردہ ص۱۱)
دعا:
یاربِّ مصطَفٰے
عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ہمیں نیکیاں کرنے اور ان کا
ثواب فوت شدہ مسلمانوں کو ایصال کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ یا اللہ!عَزَّوَجَلّ
ہماری بے حِساب مغفِرت فرما۔ یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں سچّا عاشِقِ رسول
بنا۔یااللہ ! عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )
کی بخشش فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
Monday, June 24, 2013
قبروں کی زیارت
عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ نَھَیْتُکُمْ عَنْ
زِیَارَۃِالْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْھَا
حضرت بریدہ سے(روایت ہے) کہا(انہوں نے) فرمایا اللہ کے رسول(نے) میں
نے منع کیا تھاتم سب کو
قبروں کی زیارت سے
تو(اب)زیارت کرو ان کی
بامحاورہ ترجمہ: حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اللہ
کے رسول عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:میں نے تم لوگوں کو قبروں
کی زیارت سے منع کیا تھا(اب میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ)ان کی زیارت کرو۔
(صحیح مسلم ،کتاب الجنائز،باب استئذان النبی ربّہ فی ...الخ، الحدیث ۱۰۶،ص۴۸۶)
وضاحت:
شروعِ اسلام میں زیارتِ
قبور مسلمان مردوں عورتوں کو منع تھی کیونکہ لوگ نئے نئے اسلام لائے تھے اندیشہ
تھا کہ (سابقہ زندگی میں )بت پرستی کے عادی ہونے کی وجہ سے اب قبر پرستی شروع کر
دیں ۔جب ان میں اسلام راسخ ہو گیا تو یہ ممانعت منسوخ ہو گئی، جیسے جب شراب حرام
ہوئی تو شراب کے برتن استعمال کرنا بھی ممنوع ہو گیا تا کہ لوگ برتن دیکھ کر پھر
شراب یاد نہ کر لیں،جب لوگ ترکِ شراب کے عادی ہو گئے تو برتنوں کے استعمال کی
ممانعت منسوخ ہو گئی۔
قبروں کی زیارت کا یہ حکم
استحبابی ہے ۔حق یہ ہے کہ اس حکم میں عورتیں بھی شامل ہیں کہ انہیں بھی زیارت قبور
کی اجازت دی گئی۔لیکن اب عورتوں کو زیارت قبور سے روکا جائے یعنی گھر سے زیارتِ
قبور کیلئے نہ نکلیں سوائے روضۂ اطہر حضور انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
کی( زیارت کے لئے) ، ہاں اگر کہیں جارہی ہوں اور راستہ میں قبر واقع ہو تو زیارت
کر لیں جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے حضرت عبد الرحمٰن رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کی زیارت کی،اور اگر کسی گھر میں ہی اتفاقاً قبر واقع ہو
تو زیارت کر سکتی ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں حضور
انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی قبر شریف تھی جہاں آپ مجاورہ و منتظمہ
تھیں۔خیال رہے حدیث پاک میں '' زُوْرُوْا (یعنی زیارت کرو) ''مطلق حکم ہے لہٰذا مسلمانوں
کو زیارت قبر کیلئے سفر بھی جائز ہے۔ جب ہسپتال اور حکیموں کے پاس سفر کر کے جا
سکتے ہیں تو مزاراتِ اولیاء پر بھی سفر کر کے جا سکتے ہیں کہ ان کی قبور روحانی
ہسپتال ہیں، نیز اگر کہیں قبر پر لوگ ناجائز حرکتیں کرتے ہوں تو اس سے زیارت قبور
نہ چھوڑے،ہو سکے تو ان حرکتوں کو بند کرے ۔ دیکھو حضور انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہ وسلم نے ہجرت سے پہلے بتوں کی وجہ سے کعبہ نہ چھوڑا بلکہ جب موقعہ ملا تو بت
نکال دیئے ۔آج بھی نکاح میں لوگ ناجائز حرکتیں کر تے ہیں مگر اس کی وجہ سے نہ نکاح
بند کئے جاتے ہیں نہ وہاں کی شرکت ، نکاح بھی سنّت مطلقہ ہے اور زیارت قبور بھی
سنّتِ مطلقہ،نکاح و زیارتِ قبور دونوں کے لئے سفر بھی درست ہے اور ناجائز امور کی
وجہ سے ان میں شرکت ممنوع نہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، ج ۲،ص۵۲۲)
صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی
اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی لکھتے ہیں کہ عورتوں کے ليے بعض علماء نے زیارتِ قبور
کو جائز بتایا، درمختار میں یہی قول اختیار کیا، مگر عزیزوں
کی قبور پر جائیں گی تو جزع و فزع کریں گی، لہٰذا ممنوع ہے اور صالحین کی قبور
پر برکت کے لیے جائیں تو بوڑھیوں کے لیے حرج نہیں اور جوانوں کے لیے ممنوع۔
اور اَسْلَمْ (یعنی سلامتی کی راہ )یہ ہے کہ عورتیں مطلقاً منع کی جائیں کہ
اپنوں کی قبور کی زیارت میں تو وہی جزع و فزع ہے اور صالحین کی قبور پر یا تعظیم
میں حد سے گزر جائیں گی یا بے ادبی کریں گی کہ عورتوں میں یہ دونوں باتیں بکثرت سے
پائی جاتی ہیں۔ (بہار شریعت
حصہ ۴ ص ۱۹۸)
دعا:
یاربِّ مصطَفٰے
عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ہمیں اچھی اچھی نیّتوں کے
ساتھ قبروں کی زیارت کی توفیق عطا فرما ۔ یا اللہ!عَزَّوَجَلّ ہماری بے حِساب
مغفِرت فرما ۔یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔یااللہ !
عَزَّوَجَلّ اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی بخشش فرما
۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پردہ
عَنْ بْنِ مَسْعُوْدٍ عَن النَّبیِّ قَالَ أَلْمَرْءَ ۃُ عَوْرَۃٌ
فَاِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَھَا الشَّیْطَانُ
حضرت ابن مسعود سے(روایت کرتے ہیں ) نبی(صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ
وسلم ) سے فرمایا عورت پردہ میں رکھنے کی
چیزہے توجب وہ(عورت)نکلتی ہے نگاہ اٹھا کر دیکھتا ہے اس(عورت)کو شیطان
بامحاورہ ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
اللہ کے رسول عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ عورت عورت ہے یعنی
پردے میں رکھنے کی چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو گھورتا ہے۔
(جامع الترمذی،کتاب النکاح،باب ۱۸،الحدیث۱۱۷۶،ج۲،ص۳۹۲)
وضاحت
عورت کے معنی ہیں ''مَایُعَارُ
فیِ اِظْہَارِہِ'' یعنی جس کا ظاہر ہونا قابلِ عار و شرم ہو ،عورت
کا بے پردہ رہنا میکے والوں کے لئے بھی ننگ وشرم ہے اور سسرال والوں کے لئے
بھی۔استشراف کے معنیٰ ہیں ''کسی چیز کو بغور دیکھنا یا اس کے معنیٰ ہیں لوگوں کی
نگاہ میں اچھا کر دینا تاکہ لوگ اسے بغور دیکھیں۔''عورت جب بے پردہ ہو تی ہے تو
شیطان لو گوں کی نگاہ میں اسے بھلی کر دیتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ اسے تکتے ہیں ،مثل
مشہور ہے کہ پرائی عورت اور اپنی اولاد اچھی معلوم ہوتی ہے اور پرایا مال اور اپنی
عقل زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ سرکارصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا یہ فرمان
بالکل دیکھنے میں آ رہا ہے بعض لوگ اپنی خوبصورت بیویوں سے متنفر ہوتے ہیں دوسری
بد صورت عورتوں پر فریفتہ۔
(مراٰۃ المناجیح، ج ۵،ص۱۶،۱۷)
آزاد عورتوں کیلئے منہ کی
ٹکلی اور دونوں ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوؤں کے سوا سارا بدن عورت ہے۔غیر محرموں سے
ان اعضاء کے سوا پورا بدن چھپانا فرض ہے،بلکہ جو ان عورت کو غیرمَردوں کے سامنے
منہ کھولنا بھی منع ہے۔سر کے لٹکے ہوئے بال اور گردن اورکلائیاں بھی عورت ہیں ان
کا چھپانا بھی فرض ہے۔
( ماخوذازبہار شریعت،حصہ۳،ص۴۸،۴۹)
مدینہ :مزید تفصیل کے لئے ''پردے کے بارے میں سوال جواب '' کا مطالعہ
کیجئے ۔
دعا: یاربِّ مصطَفٰے
عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہماری بے حِساب مغفِرت
فرما۔ یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔ یااللہ ! عَزَّوَجَلَّ
اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی بخشش فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
ناپسندیدہ چیز
عَن ابْن عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ
قَالَ أَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللہِ تَعَالٰی الطَّلَاقُ
حضرت( عبد اللہ) ابن عمر سے(روایت ہے)کہ نبی( صلی اللہ تعالی علیہ
وآلہ وسلم نے) فرمایا زیادہ ناپسندیدہ
حلال اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق(ہے)
بامحاورہ ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ تمام حلال چیزوں میں
خداتعالی کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
(سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب کراھیۃ الطلاق،الحدیث ۲۱۷۸،ج۲،ص۳۷۰)
وضاحت
نکاح سے عورت شوہر کی
پابند ہوجاتی ہے اس پابندی کے اٹھا دینے کو طلاق کہتے ہیں۔ (ماخوذازبہار شریعت،حصہ۸،ص۵)
اللہ تعالیٰ نے بندوں
کیلئے ضرورت کی بنا پر طلاق مباح تو کر دی ہے مگر رب تعالیٰ کو پسند نہیں کہ اس
میں دو محبوبوں کی جدائی گھر بگڑنا اولاد کی تباہی ہے غرضکہ بلا وجہ طلاق کراہت سے
خالی نہیں،بہت سی چیزیں حلال ہیں مگر بہتر نہیں جیسے بلا عذر مرد کا گھر میں نماز
پڑھ لینا وغیرہ۔ (مراٰۃ المناجیح، ج ۵،ص۱۱۲)
مسئلہ: طلاق(باعتبار حکم و
نتیجہ)تین قسم ہے۔(1)رجعی (2)بائن ( 3)مغلظہ
( 1)رجعی:وہ جس سے عورت فی الحال نکاح سے نہیں نکلتی،عدت کے اندر شوہر
رجعت کرسکتا ہے خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو۔ہاں اگرعدت گزر جائے اور رجعت نہ کرے
تو اس وقت نکاح سے نکلے گی،مگر شوہر پھر بھی عورت کی مرضی سے نکاح کرسکتا ہے،حلالہ
کی ضرورت نہیں۔
( 2)بائن:وہ جس سے عورت فی الفور نکاح سے نکل جاتی ہے۔عورت کی مرضی سے
شوہر عدت کے اندر نکاح کرسکتا ہے اور عدت کے بعد بھی۔حلالہ کی ضرورت نہیں۔
(3)مغلظہ:وہ کہ عورت فوراً نکاح سے نکل بھی گئی اور اب عورت بغیرحلالہ
شوہر اول کیلئے جائز نہ ہوگی۔
(ماخوذ از انوار الحدیث،ص۳۲۶،۳۲۷،بہار شریعت، حصہ۸، ص۵ )
مسئلہ: اگر عورت حاملہ ہوتو
بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔
(ماخوذازبہار شریعت، حصہ۸، ص۵ )
دعا:
یاربِّ مصطَفٰے
عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! عَزَّوَجَلّ ہماری بے حِساب
مغفِرت فرما۔ یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔یااللہ !
عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی بخشش فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
Saturday, June 22, 2013
تکلیف اور گناہوں کا مٹنا
عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ عَنِ النَّبیِّ قَالَ مَا
یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَّصَبٍ وَلَا وَصَبٍ
وَلَا ھَمٍّ وَلَا حُزْنٍ وَلآ أَذَی وَلَا غَمٍّ حَتّٰی الشَّوْکَۃِ
یُشَاکُھَا اِلَّا کَفَّرَ اللہُ بِھَا مِنْ خَطَایَاہُ اللہ
حضرت ابوسعید خدری نبی(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)سے روایت کرتے
ہیں کہ فرمایا نہیں پہنچتی ہے
مسلمان(کو)کوئی تکلیف اور نہ کوئی بیماری اور نہ کوئی فکر اور نہ کوئی ملال اور نہ کوئی اذیت اور نہ کوئی
غم
یہاں تک کہ کاٹنا جو چبھتا ہے اسے مگر مٹاتا ہے ان(مصیبتوں)کے سبب سے
اس(مسلمان)کی خطائیں
بامحاورہ ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،
کہ اللہ کے رسول عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو کوئی
تکلیف، فکر، بیماری ،ملال ، اذیت اور کوئی غم نہیں پہنچتا یہاں تک کہ کانٹا جو اسے
چبھے مگر اللہ تعالیٰ ان کے سبب ان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب المرضیٰ،باب ماجاء فی کفارۃالمرض،الحدیث۵۶۴۲،ج ۴،ص۳)
وضاحت:
اس حدیث میں مسلمانوں
کیلئے عظیم بشارت ہے کہ صبر کرنے والے کے لئے تھوڑی سی تکلیف بھی اس کے گناہوں کا
کفّارہ ہے ۔تکالیف اور بیماری وغیرہ کی فضیلت پر چند مزید احادیث ِ مبارکہ ملاحظہ
ہوں:
۱، حضرتِ سیدتنا عا شہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرورِ
کونین، ہم غریبوں کے دل کے چین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ'' جب
مومن بیمارہوتا ہے تو اللہ عزوجل اسے گناہوں سے ایسا پاک کردیتا ہے جیسے بھٹی لوہے
کے زنگ کو صاف کردیتی ہے ۔''
(التر غیب و التر ھیب ،کتاب الجنائز ، باب التر
غیب فی الصبر ،الحدیث ۴۲ ،ج۴ ،ص ۱۴۶)
۲، حضرتِ سیدنا اَسَدبن
کُرْزرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
نے فرمایاکہ'' مریض کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ۔''
(التر غیب والترھیب ،کتاب
الجنائز ،باب التر غیب فی الصبر ،الحدیث ۵۶، ج
۴ ، ص ۱۴۸)
۳، حضرتِ سیدنا ابن مسعود
رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم ،نورِ مجسم ،شاہِ بنی آدم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا،'' مومن پر تعجب ہے کہ وہ بیماری سے ڈرتا
ہے، اگر وہ جان لیتا کہ بیماری میں اُس کے لئے کیا ہے؟ تو ساری زندگی بیمار رہنا
پسند کرتا۔'' پھر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی
طرف اٹھا یا اور مسکرانے لگے۔ عرض کیا گیا ،''یا رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم! آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر تبسم کیوں فرمایا ؟''ارشاد
فرمایا،'' میں دو فرشتوں پر حیران ہوں کہ وہ دونوں ایک بندے کو ایک مسجد میں تلاش
کر رہے تھے جس میں وہ نماز پڑھا کرتا تھا، جب انہوں نے اسے نہ پایا تو لوٹ گئے اور
عرض کیا ،''یا رب عزوجل! ہم تیرے فلاں بندے کے دن اور رات میں کئے ہوئے اعمال
لکھتے تھے پھر ہم نے دیکھا کہ تو نے اُسے آزمائش میں مبتلاء فرما دیا۔ ''تو اللہ
عزوجل فرماتا ہے کہ ''میرا بندہ دن اور رات میں جو عمل کیا کرتا تھا اس کے لئے وہ
عمل لکھو اور اسکے اجر میں کمی نہ کرو، جب تک وہ میری طرف سے آزمائش میں ہے اس کا
ثواب میرے ذمہ کرم پرہے اور جو اعمال وہ کیا کرتا تھا اس کے لئے ان کا بھی ثواب ہے
۔''
(المعجم الاوسط،الحدیث ۲۳۱۷، ج۲، ص ۱۱)
دعا:
یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ
وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! ہمیں مصائب وآلام پر صبر کرنے کی توفیق
عطا فرما ۔ یا اللہ!عَزَّوَجَلّ ہماری بلا حساب مغفِرت فرما ۔یا اللہ عَزَّوَجَلَّ
ہمیں سچّا عاشِقِ رسول بنا۔یااللہ ! عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )
کی بخشش فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
سبحان اللہ
الحمد اللہ اللہ اکبر
اشہد ان لا الہ الا اللّٰہ و اشہد ان محمد رسول اللہ
سو شہیدوں کا ثواب
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ
قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ مَنْ
تَمَسَّکَ بسُنَّتِیْ
عِنْدَفَسَادِأُمَّتِیْ فَلَہٗ أَجْرُ
مِائَۃِ شَھِیْدٍ
(روایت ہے)حضرت ابوہریرہ سے کہا(انہوں نے کہ) فرمایا اللہ کے
رسول(نے) جس نے مضبوطی سے تھامے رکھا میری
سنت کو میری امت کے فساد کے وقت تو اس کیلئے(ہے)ثواب سو شہیدوں(کا)
بامحاورہ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،کہ
اللہ کے رسول عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جو شخص فسادِ امت
کے وقت میری سنت پر عمل کریگا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الایمان،باب الاعتصام،الحدیث۱۷۶،ج۱،ص۵۵)
وضاحت
فسادِ اُمت سے سنّت چھوڑ
دینااور اس میں کمی وکوتاہی کرنا مراد ہے ۔اور سوشہید کے لفظ سے اس کی طرف اشارہ
ہے کہ ایسے وقت میں سنّت پر عمل بڑی مشقت اور جدوجہد سے ہوسکے گا لیکن اس کی فضیلت
اور ثواب بہت زیادہ ہوگا ۔(اشعۃ اللمعات،ج۱،ص۱۵۵)
شہید کا ثواب کتنا ہے اسے اس فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ
وسلم سے سمجھئے ،چنانچہ حضرتِ
سیدنامِقدام بن مَعدِی کَرِبَ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال،
پیکرِ حُسن وجمال،، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی
آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا،'' بیشک اللہ عزوجل
شہیدکو چھ انعام عطا فرماتاہے ،(۱)اس
کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت فرمادیتا ہے اور جنت میں اسے اس کا
ٹھکانا دکھا دیتا ہے (۲) اسے عذاب
قبرسے محفوظ فرماتا ہے،(۳)قیامت کے
دن اسے بڑی گھبراہٹ سے امن عطا فرمائے گا،(۴)اس
کے سرپر وقار کا تاج رکھے گا جس کا یاقوت دنیا اور اس کی ہرچیز سے بہتر ہو گا، (۵) اس کا حوروں میں سے 72حوروں کے ساتھ نکاح
کرائے گا، (۶) اس کی 70 رشتہ داروں کے حق میں
شفاعت قبول فرمائے گا۔''
(ابن ماجہ، کتاب الجہاد، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ، الحدیث ۲۷۹۹ ،ج۳ ،ص ۳۶۰ )
فسادِ امت کے وقت سنّت کو
مضبوطی سے تھامنے والے کے لئے سوشہیدوں کے ثواب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شہید تو
ایک بار تلوار کا زخم کھا کر پار ہوجاتا ہے مگر یہ بندہ خدا عمربھر لوگوں کے طعنے
اور زبانوں کے گھاؤ کھاتا رہتا ہے ، اللہ اور رسول عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی خاطر سب کچھ برداشت کرتا ہے اس کا جہاد جہادِ اکبر ہے جیسے اس
زمانہ میں داڑھی رکھنا اور سود سے بچنا وغیرہ ۔(ماخوذ از مراٰۃ المناجیح،ج۱،ص۱۷۳)
یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !
ہمیں سنّتوں کا پیکر بنا ۔ یا اللہ!عَزَّوَجَلّ ہماری بے حِساب مغفِرت فرما۔یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں
سچّا عاشِقِ رسول بنا۔یااللہ ! عَزَّوَجَلَّ اُمَّتِ محبوب (صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )
کی بخشش فرما ۔
اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
Subscribe to:
Comments (Atom)