Monday, September 25, 2017
Monday, September 11, 2017
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
گر اُن کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
---------------------------------
غلام اُن کی عنایت سے چین میں ہوںگے
عدو حضور کا آفت سے مبتلا ہوگا
میں اُن کے در کا بھکاری ہوں فضلِ مولیٰ سے
حسن فقیر کا جن٘ت میں بسترا ہوگا
---------------------------------
مچلا ہے کہ رحمت نے امید بندھائی ہے
کیا بات تِری مجرم کیا بات بنائی ہے
سب نے سرِ محشر میں للکار دیا ہم کو
اے بے کسوں کے آقا اب تیری دہائی ہے
اب آپ سنبھالیں تو کام اپنے سنبھل جائیں
ہم نے تو کمائی سب کھیلوں میں گوائی ہے
بازارِ عمل میں تو سودا نہ بنا اپنا
سرکارِ کرم تجھ میں عیبی کی سمائی ہے
یوں تو سب انھیں کا ہے پَر دل کی اگر پوچھو
یہ ٹوٹے ہوئے دل ہی خاص اُن کی کمائی ہے
مجرم کو نہ شرماؤ احباب کفن ڈھک دو
منھ دیکھ کے کیا ہوگا پردے میں بھلائی ہے
طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد
ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے
اے دل یہ سلگنا کیا جلنا ہے تو جل بھی اٹھ
دَم گھٹنے لگا ظالم کیا دھونی رمائی ہے
حرص و ہوسِ بد سے دل تو بھی ستم کرلے
تو ہی نہیں بے گانہ دنیا ہی پرائی ہے
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف اُن کی رسائی ہے صرف اُن کی رسائی ہے
صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم
Sunday, September 10, 2017
تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ
تو شمع رسالت ہے عالم
تیرا پروانہ
تو ماہ نبوت ہے اے
جلوہ جاناناں
جو ساقی کوثر کے چہرے
سے نقاب اٹھے
ہر دل بنے میخانہ ہر
آنکھ ہو پیمانہ
سرشار مجھے کر دے اک
جام لبالب سے
تا حشر رہے ساقی آباد
یہ مے خانہ
دل اپنا چمک اٹھے
ایمان کی طلعت سے
کر آنکھیں بھی نورانی
اے جلوہ جاناناں
اس در کی حضوری
ہی عصیاں کی دوا ٹھری
ہے زہر معاصی کا
طیبہ ہی شفاء خانہ
کیوں زلف معنبر سے
کوچے نہ مہک اُٹھیں
ہے پنجۂ قدرت جب
زلفوں کا تری شانہ
گر پڑ کے یہاں پہنچا
مر مر کے اسے پایا
چھوٹے نہ الہی اب سنگ
در جاناں
پیتے ہیں تیرے در کا
کھاتے ہیں تیرے در کا
پانی ہے تیرے پانی کا
کھانا ہے تیرا کھانا
ہر پھول میں بو تیری
ہر شمع میں ضو تیری
بلبل ہے تیرا بلبل
پروانہ ہے پروانہ
سرکار کے جلووں سے
روشن ہے دل نوری
تا حشر رہے روشن نوری
کا یہ کاشانہ
صلی اللہ علی محمد و
صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم
Friday, September 8, 2017
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے (دعا)
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے
محرومِ تماشا کو پھر دیدہء بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دِکھلا دے
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
پیدا دلِ ویراں میں پھر شورشِ محشر کر
اس محملِ خالی کو پھر شاہد لیلا دے
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
اس دور کی ظلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو
وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرما دے
رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریا کر
خودداریِ ساحل دے، آزادیِ دریا دے
بے لوث محبت ہو، بے باک صداقت ہو
سینوں میں اُجالا کر، دل صورتِ مینا دے
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشہء فردا دے
میں بلبلِ نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے!
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
https://goo.gl/vGbvuH
https://goo.gl/vGbvuH
Subscribe to:
Comments (Atom)