Wednesday, April 19, 2017

اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلادیئے ہیں


اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلادیئے ہیں
جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیئے ہیں

اک دل ہمارا کیا ہے آزار اُس کا کتنا
تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلادیئے ہیں

آنے دو یا ڈبو دو، اب تو تمہاری جانب
کشتی تمہِیں پہ چھوڑی ، لنگر اٹھا دیئے ہیں

میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہادیئے ہیں ، دُر ، بے بہا دیئے ہیں

اُنکے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو
جب یاد آگئے ہیں سب غم بھلا دیئے ہیں

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا
رو رو کے مصطفےٰ نے دریا بہا دیئے ہیں

ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلَّم
جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دیئے ہیں