Sunday, November 6, 2016
Sunday, October 30, 2016
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
سیاہیاں مجھ میں داغ مجھ میں
جلیں اُسی کے چراغ مجھ میں
اثاثۂ قلب و جاں وہی ہے
مرے گناہوں پہ اُس کا پردہ
وہ میرا اِمروز میرا فردا
ضمیر پر حاشیے اُسی کے
شعور بھی اُس کا وضع کردہ
وہ میرا ایماں، میرا تیقن
وہ میرا پیمانۂ تمدن
وہ میرا معیارِ زندگی ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
وہ میری منزل بھی ہمسفر بھی
وہ سامنے بھی پسِ نظر بھی
وہی مجھے دُور سے پکارے
اُسی کی پرچھائی روح پر بھی
وہ رنگ میرا، وہ میری خوشبو
میں اُس کی مٹھی کا ایک جگنو
وہ میرے اندر کی روشنی ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
اُسی کے قدموں میں راہ میری
اُسی کی پیاسی ہے چاہ میری
اُسی کی مجرم میری خطائیں
اُسی کی رحمت گواہ میری
اُسی کا غم مجھ کو ساتھ رکھے
وہی میرے دل پہ ہاتھ رکھے
وہ درد بھی ہے سکُون بھی ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
ازل کے چہرے پہ نور اُس کا
ظہورِ عالم ظہور اُس کا
خود اُس کی آواز گفتۂ حق
خود اُس کی تنہائی طُور اُس کا
بہت سے عالی مقام آئے
خدا کے بعد اُس کا نام آئے
وہ اولیں ہے وہ آخری ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
نہ مجھ سے بارِ عمل اُٹھے گا
نہ عذب ہی کوئی ساتھ دے گا
اگر کہے گا تو روزِ محشر
خدا سے میرا نبی کہے گا
سیاہیاں داغ صاف کر دے
اِسے بھی مولیٰ معاف کر دے
یہ میرا عاشق ہے وارثی ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
سیاہیاں مجھ میں داغ مجھ میں
جلیں اُسی کے چراغ مجھ میں
اثاثۂ قلب و جاں وہی ہے
مرے گناہوں پہ اُس کا پردہ
وہ میرا اِمروز میرا فردا
ضمیر پر حاشیے اُسی کے
شعور بھی اُس کا وضع کردہ
وہ میرا ایماں، میرا تیقن
وہ میرا پیمانۂ تمدن
وہ میرا معیارِ زندگی ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
وہ میری منزل بھی ہمسفر بھی
وہ سامنے بھی پسِ نظر بھی
وہی مجھے دُور سے پکارے
اُسی کی پرچھائی روح پر بھی
وہ رنگ میرا، وہ میری خوشبو
میں اُس کی مٹھی کا ایک جگنو
وہ میرے اندر کی روشنی ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
اُسی کے قدموں میں راہ میری
اُسی کی پیاسی ہے چاہ میری
اُسی کی مجرم میری خطائیں
اُسی کی رحمت گواہ میری
اُسی کا غم مجھ کو ساتھ رکھے
وہی میرے دل پہ ہاتھ رکھے
وہ درد بھی ہے سکُون بھی ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
ازل کے چہرے پہ نور اُس کا
ظہورِ عالم ظہور اُس کا
خود اُس کی آواز گفتۂ حق
خود اُس کی تنہائی طُور اُس کا
بہت سے عالی مقام آئے
خدا کے بعد اُس کا نام آئے
وہ اولیں ہے وہ آخری ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
نہ مجھ سے بارِ عمل اُٹھے گا
نہ عذب ہی کوئی ساتھ دے گا
اگر کہے گا تو روزِ محشر
خدا سے میرا نبی کہے گا
سیاہیاں داغ صاف کر دے
اِسے بھی مولیٰ معاف کر دے
یہ میرا عاشق ہے وارثی ہے
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
Friday, September 23, 2016
Monday, September 19, 2016
Monday, September 12, 2016
Sunday, September 4, 2016
Saturday, September 3, 2016
Saturday, August 13, 2016
Thursday, August 11, 2016
دل سے میں نے دیکھا پاکستان
اس وطن پہ جان و دل قرباں یہ وطن ہمارا
اس وطن سے پہچان ہماری یہ وطن ہمارا
قربانیاں کتنی دے کر آزادی لائے
میں تو یہ چاہوں ساری دنیا بھی یہ جانے
دل سے میں نے دیکھا پاکستان
جاں سے میرا دھرتی پر ایمان
دیکھو کیسے رنگ رنگ کے پھول کھلے دیکھو ہے کیسی خوشبو
دھیرے دھیرے جیسے صبح سے شام ملے
جہاں زندگی ہے ہر سو
یوں ملیں گے جیسے ملتا ہے لہر سے کنارہ
یوں چلیں گے جیسے چلتا ہے زندگی کا دھارا
مل کے یہاں سارے جانا ، آگے ہی جائیں
جو بھی ہیں راہیں ساری جینے کی یہ راہیں
دل سے میں نے دیکھا پاکستان
جان سے میرا دھرتی پہ ایمان
Friday, July 15, 2016
اللہ اللہ اللہ ھو لا الہٰ الا ھُو
اللہ اللہ اللہ ھو لا الہٰ الا ھُو
آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار
پڑھتے ہیں صلی اللہ علیک وسلم آج در و دیوار نبی جی
Monday, June 27, 2016
Sunday, June 26, 2016
Friday, June 24, 2016
Tuesday, June 21, 2016
حضور ﷺ جو بھی ارشاد فرما دیں ، وہ دین بن جاتا ہے
جیسے میرے سرکار ہیں، ایسا نہیں کوئی
صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم
Monday, June 20, 2016
Saturday, June 18, 2016
Sunday, June 5, 2016
Tuesday, May 31, 2016
Tuesday, May 24, 2016
Thursday, May 19, 2016
Tuesday, May 17, 2016
Tuesday, May 10, 2016
قسیدہ نور
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا ایک اک ستارہ نور کا
عرش بھی فردوس بھی اس شاہِ والا نور کا
یہ مثمن برج وہ مشکوئے اعلیٰ نور کا
تیرے ہی ماتھے رہا اے جان سہرا نور کا
بخت جاگا نور کا چمکا ستارا نور کا
میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا
نور دن دونا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا
پشت پر ڈھلکا سرِ انور سے شملہ نور کا
دیکھیں موسیٰ طور سے اترا صحیفہ نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور کا
آبِ زر بنتا ہے عارض پر پسینہ نور کا
مصحفِ اعجاز پر چڑھتا ہے سونا نور کا
شمع دل مشکوٰۃ تن سینہ زجاجہ نور کا
تیری صورت کے لئے آیا ہے سورہ نور کا
تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سایہ کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
وصفِ رخ میں گاتی ہیں حوریں ترانہ نور کا
قدرتی بینوں میں کیا بجتا ہے لہرا نور کا
ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہوگیا ٹھنڈا کلیجہ نور کا
جو گدا دیکھو لیے جاتا ہے توڑا نور کا
نور کی سرکار ہے کیا اس میں توڑا نور کا
بھیک لے سرکار سے لا جلد کاسہ نور کا
ماہِ نو طیبہ میں بٹتا ہے مہینہ نور کا
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
یہ جو مہر و مہ پہ ہے اطلاق آتا نور کا
بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا
چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
اے رضا یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
Sunday, May 8, 2016
پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی کیوں کر اتریں پار ہم
پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی کیوں کر اتریں پار ہم
کس بلا کی مے سے ہیں سر شار ہم دن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم
تم کرم سے مشتری ہر عیب کے جنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم
دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم
لغزشِ پا کا سہارا ایک تم گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم
صَدقہ اپنے باز ووں کا المدد کیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم
دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم
اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم
اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوند مر مِٹے پیا سے ادھر سرکار ہم
اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دو ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کی آؤ دیکھیں سیر طور و نار ہم
ہمت اے ضعف ان کے در پر گر کے ہوں بے تکلف سایہ دیوار ہم
با عطا تم شاہ تم مختار تم بے نوا ہم زار ہم ناچار ہم
تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیردیں ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم
اپنی ستاری کا یا رب واسطہ ہوں نہ رسوا بر سرِ دربار ہم
اتنی عرضِ آخری کہہ دو کوئی ناؤ ٹوٹی آپڑے منجدھار ہم
منھ بھی دیکھا ہے کسی کے عفو کا دیکھ او عصیاں نہیں بے یار ہم
میں نثار ایسا مسلماں کیجیے توڑ ڈالیں نفس کا زنّار ہم
کب سے پھیلائے ہیں دامن تیغ عِشق اب تو پائیں زخم دامن دار ہم
سنّیت سے کھٹکے سب کی آنکھ میں پھول ہو کر بن گئے کیا خار ہم
ناتوانی کا بھلا ہو بن گئے نقشِ پا ئے طالبانِ یار ہم
دل کے ٹکڑے نذرِ حاضر لائے ہیں اے سگانِ کوچۂ دلدار ہم
قِسمت ِ ثور و حرا کی حرص ہے چاہتے ہیں دل میں گہر ا غار ہم
چشم پوشی و کرم شانِ شما کارِ ما بے با کی و اصرار ہم
فصلِ گل سبزہ صبا مستی شباب چھوڑیں کس دل سے در خمار ہم
میکدہ چھٹتا ہے لِلّٰہ ساقیا اب کے ساغر سے نہ ہوں ہشیار ہم
ساقی تسنیم جب تک آ نہ جائیں اے سیہ مستی نہ ہوں ہشیار ہم
نازشیں کرتے ہیں آپس میں مَلک ہیں غلامانِ شہِ ابرار ہم
لطفِ از خود رفتگی یار ب نصیب ہوں شہید جلوۂ رفتار ہم
اُن کے آگے دعویِ ہستی رضا کیا بکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم
کس بلا کی مے سے ہیں سر شار ہم دن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم
تم کرم سے مشتری ہر عیب کے جنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم
دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم
لغزشِ پا کا سہارا ایک تم گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم
صَدقہ اپنے باز ووں کا المدد کیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم
دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم
اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم
اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوند مر مِٹے پیا سے ادھر سرکار ہم
اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دو ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم
چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کی آؤ دیکھیں سیر طور و نار ہم
ہمت اے ضعف ان کے در پر گر کے ہوں بے تکلف سایہ دیوار ہم
با عطا تم شاہ تم مختار تم بے نوا ہم زار ہم ناچار ہم
تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیردیں ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم
اپنی ستاری کا یا رب واسطہ ہوں نہ رسوا بر سرِ دربار ہم
اتنی عرضِ آخری کہہ دو کوئی ناؤ ٹوٹی آپڑے منجدھار ہم
منھ بھی دیکھا ہے کسی کے عفو کا دیکھ او عصیاں نہیں بے یار ہم
میں نثار ایسا مسلماں کیجیے توڑ ڈالیں نفس کا زنّار ہم
کب سے پھیلائے ہیں دامن تیغ عِشق اب تو پائیں زخم دامن دار ہم
سنّیت سے کھٹکے سب کی آنکھ میں پھول ہو کر بن گئے کیا خار ہم
ناتوانی کا بھلا ہو بن گئے نقشِ پا ئے طالبانِ یار ہم
دل کے ٹکڑے نذرِ حاضر لائے ہیں اے سگانِ کوچۂ دلدار ہم
قِسمت ِ ثور و حرا کی حرص ہے چاہتے ہیں دل میں گہر ا غار ہم
چشم پوشی و کرم شانِ شما کارِ ما بے با کی و اصرار ہم
فصلِ گل سبزہ صبا مستی شباب چھوڑیں کس دل سے در خمار ہم
میکدہ چھٹتا ہے لِلّٰہ ساقیا اب کے ساغر سے نہ ہوں ہشیار ہم
ساقی تسنیم جب تک آ نہ جائیں اے سیہ مستی نہ ہوں ہشیار ہم
نازشیں کرتے ہیں آپس میں مَلک ہیں غلامانِ شہِ ابرار ہم
لطفِ از خود رفتگی یار ب نصیب ہوں شہید جلوۂ رفتار ہم
اُن کے آگے دعویِ ہستی رضا کیا بکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم
Sunday, April 24, 2016
Monday, April 18, 2016
واہ کیا جود و کرم ہے -- حدائقِ بخشش و وسائلِ بخشش
میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دیئے ہیں، در، بے بہا دیئے ہیں
Friday, April 1, 2016
Wednesday, March 23, 2016
Tuesday, March 22, 2016
Friday, March 11, 2016
Monday, March 7, 2016
Sunday, March 6, 2016
Thursday, March 3, 2016
Wednesday, March 2, 2016
Tuesday, March 1, 2016
Subscribe to:
Comments (Atom)